جے این یو کے زہر اگلتے یہ لیفٹ پروفیسر

پچھلے دنوں جو جے این یو میں ملکی بغاوت سرگرمیوں سے جہاں کچھ طلبا بے نقاب ہوئے ہیں وہیں یہ بتانا ضروری ہے طلبا کے دماغ و نظریات آلودہ کرنے والے جے این یو کے اساتدہ کا ماحول آلودہ کرنے میں کم کردار نہیں ہے۔ یہ اساتذہ طلبا کو بھڑکاتے ہیں اور انہیں آگے کرکے خود پرچے کے پیچھے چھپے رہتے ہیں۔ دیش ملکی بغاوت معاملے پر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں مچے ہنگامے کے درمیان نیا ویڈیو سامنے آیا ہے۔ یو ٹیوب پر دستیاب اس ویڈیو کلپ میں جے این یو کے اسکول آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کی پروفیسر نویدیتا مینن یہ کہتی پہلی بار نظر آرہی ہیں کہ کشمیر پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ ہے اور پوری دنیا ایسا مانتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ کیمپس میں یہ بات پروفیسر مینن روزانہ انتظامی بلاک کے باہر لگنے والی راشٹرواد کی پاٹھ شالہ میں کہہ رہی ہیں۔ جے این یو ایڈمنسٹریشن بلاک کے باہر ہوئی اس کلاس میں سینٹر فار کمپریٹیو پالیٹکس اینڈ پالیٹیکل تھارٹ کی پروفیسر نویدتا مینن کہہ رہی ہیں کہ دنیا میں مانا جاتا ہے کہ بھارت نے غیر قانونی طور پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اکثر میگزین میں ایسے نقشے شائع ہوتے رہتے ہیں جس میں دکھایا جاتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔جب دنیا بھر میں کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کی بات ہورہی ہے توہ میں سوچنا چاہئے کہ کشمیر کی آزادی کا نعرہ غلط نہیں ہے، یہ نعرہ ایک دم جائز ہے۔ 
گزشتہ27 فروری کو سامنے آئے اس ویڈیو کی سچائی کی تصدیق ہم نہیں کرسکتے لیکن اس موضوع پر جب اے بی وی پی کے نیشنل میڈیا کنوینر سنکیت بہوگنا سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پروفیسر مینن کا یہ بیان سن کر کوئی حیرانی نہیں ہوئی ہے ۔ وہ اور ان کے جیسے دیگر لیفٹ پسند آئیڈیا لوجی کے حمایتی پروفیسر لگاتار ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو پروفیسر راشٹرواد کی پاٹھ شالہ کے نام پر کیمرے کے سامنے بچوں کو ایسا پاٹھ پڑھاتے ہیں تو وہ کلاسوں میں کیا کرتے ہوں گے؟ جے این یو کے دوسرے پروفیسر نے الزام لگایا ہے پارلیمنٹ حملے کے قصوروار افضل گورو کی پھانسی کو لیکر جے این یو میں اس پروگرام کے انعقاد پر تنازع یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی رچی ہوئی سازش تھی۔جس دوران مبینہ طور پر دیش مخالف نعرے بازی ہوئی ۔ 
جے این یو پروفیسر اور جانی مانی ماہر اقتصادیات جینتی گھوش نے این ڈی اے کی دیش مخالف پالیسیاں بل اور ایک مقالہ کے دوران طلبا کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے لئے رچی گئی سازش تھی اور اس کی پلاننگ اعلی سطح پر کی گئی تھی۔ پروگرام کے دوران جو لوگ موجود تھے ان میں تین نقاب پوش لوگ تھے جنہوں نے مخالفت میں نعرے بازی کی تھی اور یہ درپردہ طور سے خفیہ بیورو کے تھے۔ ہمارا سندیش یہی ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!