اومن چانڈی کے گھوٹالے کو لیکر بری پھنسی کانگریس: ادھر کنواں ادھر کھائی

ہماچل پردیش میں کانگریس سرکار کے وزیر اعلی ویر بھدر سنگھ پر کرپشن کا معاملہ ابھی رکا نہیں تھا کہ کیرل کے ایک اور کانگریسی وزیر اعلی اومن چانڈی پر گھوٹالے کا الزام سامنے آگیا ہے۔ ریاست کے شمسی توانائی گھوٹالے میں وزیر اعلی پر 1 کروڑ90 لاکھ روپے رشوت لینے کا الزام ہے۔ اس معاملے کی اہم ملزمہ سریتا ایس نائر نے چانڈی پر سنگین الزام لگاتے ہوئے متعلقہ جانچ کمیشن سے کہا ہے کہ وزیر اعلی کو اس نے 1 کروڑ 90 لاکھ روپے کی رشوت دی ہے۔ ملزماں نے تو ریاست کے وزیر توانائی اور سینئر کانگریسی لیڈر آریہ دھن موہاید کو بھی 40 لاکھ روپے رشوت دینے کا الزام لگایا ہے۔ حالانکہ دونوں لیڈروں نے ان الزامات سے انکار کیا ہے لیکن اس سے سارے دیش میں کرپشن کے خلاف ڈنکا بجانے والی کانگریس پارٹی کی کرکری تو ہورہی ہے چانڈی کو اس گھوٹالے میں ہائی کورٹ سے فوری طور پر بھلے ہی راحت مل گئی ہو لیکن حقائق اور ثبوتوں کے آئینے میں انہیں اپنے عہدے پر ایک منٹ بھی بنے رہنے کا اخلاقی حق نہیں ہے۔ بیشک شمسی توانائی گھوٹالے کی دوسری ملزمہ سریتا ایس نائر کی ساکھ کوئی کم دمدار نہیں ہے۔ بیجو رادھا کرشنن کے ساتھ مل کر کروڑوں کا کرپشن کرنے کے بعد وہ اس معاملے میں وہسل بلور کی طرح دکھانا چاہتی ہے لیکن شمسی گھوٹالے کی جانچ کیلئے قائم جسٹس شیوراجن کمیٹی کے سامنے جو چونکانے والے انکشاف کئے ہیں انہیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن جیسا کہ چانڈی پہلے کہہ رہے تھے عدالت کے حکم کے بعد بھی انہوں نے یہی دوہرایا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن وہ حقیقت میں قصوروار ہیں یا بے قصور یہ تو جانچ کے بعد ہی طے ہوگا اور اس کا فیصلہ عدالت کرے گی لیکن ایسے کئی اسباب ہیں کہ انہیں وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹ جانا چاہئے۔ ایک تو اس لئے کہ یہ اخلاقیت کا تقاضہ ہے دوسرا یہ تقاضہ صرف ان تک محدود نہیں ہے۔ وہ ایک ریاستی حکومت کے سربراہ ہیں اور جب تک وہ کرپشن کے سنگین الزام سے گھرے ہوئے ہیں اس سرکار کی بھی ساکھ کٹہرے میں رہے گی۔ تیسرا دباؤ سے پوری طرح آزاد اور ہر طرح کی غیر جانبدارانہ جانچ یقینی بنانے کے مقصد سے بھی چانڈی کا وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹ جانا ٹھیک ہوگا۔ کانگریس پارٹی کے بڑے نیتا مانتے ہیں کہ چانڈی کے خلاف کیس درج کرنے کے کورٹ کے حکم سے پارٹی کیلئے ڈبل پریشانی کھڑی ہوگئی ہے۔ پارٹی اگر اس وقت چانڈی کو استعفیٰ دینے کے لئے کہہ دیتی تو اس کا سیدھا مطلب ہوتا کہ غلط کیا ہے اور پارٹی نے ہی انہیں قصوروار مان لیا ہے؟ پارٹی اگر چانڈی کو ہٹنے کے لئے نہیں کہتی ہے تو تین مہینے بعد ہونے جارہے اسمبلی انتخابات میں اسے کافی نقصان جھیلنا پڑ سکتا ہے۔ بری پھنسی کانگریس ادھر کنواں تو ادھر کھائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!