مکمل ریاست کا درجہ دلانے کیلئے دہلی میں ریفرنڈم کی مانگ

دہلی میں اروند کیجریوال حکومت نے دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلوانے کے لئے ریفرنڈم کی مانگ اٹھا کر دہلی سرکار ، چناؤ کمیشن اور مرکزی سرکار کے درمیان ایک نیا ٹکراؤ پیدا ہوسکتا ہے۔ اب تک تو جموں و کشمیر کے علیحدگی پسند کشمیر کا مستقبل طے کرنے کے نام پر اس طرح کی مانگ کرتے رہے ہیں۔ کیجریوال سرکار نے دہلی کے حکمرانی نظام پر ریفرنڈم کی جو مانگ کی ہے وہ آئینی نہیں ہے اور آئین میں کہیں نہیں ہے۔ آئین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دہلی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔ دنیا میں ہر ملک کی راجدھانی مرکزی سرکار کے ہی ماتحت ہے۔ دہلی دیش کی راجدھانی بھی ہے اس ناطے اس پر دیش بھر کے لوگوں کا برابر کا حق ہے۔ مرکزی انتظامیہ سے پوری طرح الگ کرنے کے فیصلے پر تو دیش بھر میں ریفرنڈم کروانا پڑے گا۔ دہلی مرکز کے زیر انتظام ریاست ہونے کی وجہ سے دہلی کے سرکاری ملازم مرکزی سرکار کے ملازم ہوتے ہیں۔ ان پر مرکزی سرکار کے قاعدے قانون نافذ ہوتے ہیں۔ ایسے میں دہلی سرکار کا رول محدود ہوجاتا ہے لیکن کم اختیار تعلیم ،ہیلتھ اور پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم، سماجی بہبود جیسے کاموں میں دخول نہیں ہے۔ آپ کے چناوی منشور کے 70 نکات میں دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلانے کی بھی بات تھی۔ پھر الگ سے ریفرنڈم کرانا تو وقت کی بربادی مانی جائے گی۔ ریفرنڈم آئین میں ہے ہی نہیں۔ ایک تو کونسا ادارہ یہ کام کرے گا اس کے جواز چناؤ کمیشن جیسا نہیں ہوسکتا یہ جب طے ہے کہ ریفرنڈم کے بعد بھی پارلیمنٹ ہی فیصلہ کرے گی ۔ ابھی کیجریوال سبھی پارٹیوں سے بات کرسکتے ہیں۔ دیش کی راجدھانی پوری طرح کسی ریاستی حکومت کے ماتحت کرنا ممکن نہیں دکھائی دے رہا ہوگا تبھی تو اس مطالبے کی شروعات کرنے والی بھاجپا اور کانگریس نے پہلے منع کردیا۔ حکومت کے ذریعے ریفرنڈم کرانے کی اسکیم پر چناؤ کمیشن بھی راضی نہیں ہے۔ چناؤ کمیشن کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ سرکار کو بتایا دیا ہے کہ آئین میں ریفرنڈم کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ ایسے میں رائے شماری ممکن نہیں ہے۔ دہلی کو مکمل ریاست کے درجے کو لیکر ریفرنڈم کرانے کی عام آدمی پارٹی کی مانگ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے دہلی پردیش کانگریس کی چیف ترجمان شرمشٹھا مکھرجی نے دھمکی دی کہ اگر کیجریوال سرکار اس ریزولیوشن کو آگے بڑھاتی ہے تو پارٹی عدالت جائے گی۔ کانگریس نے الزام لگایا کہ ’آپ‘ پارٹی ریفرنڈم کی بات کرے وہ تقسیم کاری اور علیحدگی پسند طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کرے گی۔ آپ کا کہنا ہے 44 ویں آئین ترمیم ایکٹ 1978 کے پیرا دو کے مطابق جنتا کو سماجی اقتصادی، سیاسی اور انصاف ،اظہار آزادی کو یقینی کرنے کیلئے چوطرفہ حقوق پر مفاد عامہ کے کسی مسئلے پر ریفرنڈم کیا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!