بڑھتی آبادی اصل تشویش کاباعث ہوناچاہئے

مذہب کی بنیاد پر مردم شماری کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے علاوہ دیش میں دوسرے سبھی مذاہب کے لوگوں کی آبادی بڑھی شرح دیش کی اوسطاً اضافی شرح سے کم ہے لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ مسلم آبادی اضافے کی شرح بھی مسلسل گھٹ رہی ہے۔ مردم شماری 2011 مذہب کی بنیاد پر کے اعداد وشمار سابقہ یوپی اے سرکار کے عہد میں تیار ہوگئے تھے لیکن اس کی وقت کی منموہن حکومت نے لوک سبھا چناؤ کو دیکھتے ہوئے اسے جاری نہیں کیا تھا۔ عام طورپر مردم شماری کے 3سال کے اندر مذہب پر مبنی اعداد وشمار جاری کردیئے جاتے ہیں اس طرح مارچ 2014 تک ان اعداد شمار کو جاری کردیاجاناتھالیکن منموہن سرکار نے اس کے سیاسی زوال کے ڈر سے انہیں روکا ہوا تھا۔ اب مرکز میں مودی سرکار نے بھی اسے دبائے رکھا اب بے حداہم مانیں جانے والے بہاراسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے ان اعداد وشمار کو جاری کیا گیا ہے مردم شماری کے مذہبی اعدادوشمار کو سیاسی وجہ سے روکنے یا جاری کرنے کے الزام اگر صحیح ہے تو یہ ہماری آج کی سیاست پر ایک تبصرہ ہے بتایا جارہا ہے کہ پچھلی مردم شماری کے مذہبی اعدادوشمار کو 2014 کے لوک سبھا چناؤ کو دیکھتے ہوئے پچھلی سرکار نے روکا تھا اب انہیں جاری کرنے کے پیچھے بہار کے چناؤ کو پولارائزیشن کرنے کے ارادہ ہے لیکن سیاست سے دور ہٹ کر دیکھیں تو مردم وشماری کے یہ اعداد وشمار کچھ اور ہی تشویش کا نتیجہ پیش کرتے ہیں اعداد وشمار کے مطابق 2001 سے 2011کے درمیان مسلم آبادی 0.8فیصدی بڑھی جب کہ ہندو آبادی 0.7 فیصدی گھٹی ہے۔ حالانکہ 2001کے مقابلہ میں 2011مسلموں میں آبادی اضافہ کی شرح ہندو میں آبادی اضافی شرح سے کم ہوئی ہے۔ اس اندیشے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مذہب پر مبنی اعداد وشمار کاسیاسی استعمال کیاجاسکتا ہے۔ دیش میں یہ دونوں اہم بڑھے مذاہب کی طرف سے ایسی چپ چاپ آوازیں اٹھ رہی ہیں جو اپنے اپنے مذہب پر خطرہ بتا کر لوگوں سے آبادی بڑھانے کی اپیل کرتی رہی ہیں۔ کیونکہ دیش کا بٹوارہ ایک مرتبہ مذہب کی بنیاد پر ہوچکا ہے لہذا کئی بار تھوڑے بہت ایسی آوازوں پر کان نہیں رکھتے نظر آتے۔ البتہ آسام میں 6 کی جگہ 9ضلعوں کا مسلم اکثریتی ہوجانا اور مغربی بنگال میں سرحدی اضلاع میں مسلم آبادی کا بڑھنا باعث تشویش ضرور ہے اس سے اس دلیل کو کو تقویت ملتی ہے کہ بنگلہ دیش سے آسام اور مغربی بنگال میں سرحدی اضلاع میں ناجائز دراندازی کثرت سے ہورہی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر اعداد وشمار کو جاری کرنے کی منشاء خاص کر اس کے وقت کو لے کر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ ایسی شکایت کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہے جو مردم شماری کی ذات پات پر مبنی اعداد وشمار کو شائع کرنے کے لئے آسمان اور زمین کو سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ یقیناًدوکلہ پن ہے ایک طرف ذات پات پر مبنی مردم شماری اور اس کے اعداد وشمار کو ظاہر کرنے کی مانگ تو دوسری طرف مذہب پر مبنی مردم شماری اور اس کے سامنے لانے کی مخالفت کرنا۔ یقیناًسیاسی اغراز پر مبنی ہے۔ اگرچہ سرے سے مذہب اور ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کی مخالفت میں آوازیں اٹھنا ممکن ہے انہیں وسیع حمایت مل سکتی ہیں۔ بہرحال بڑا سوال یہ نہیں کہ بڑھتی آبادی میں مذہب کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ بلکہ یہ کہ کیا دیش اس طرح بے قابو ہوتی آبادی مار جھیلنے کے لئے قوت رکھتا ہے؟ 2000 یا 2011 کے درمیان دیش کی آبادی جس طرح سے تقریبا 18 فیصدی بڑھی ہے باعث تشویش اور چیلنج بھرا ہے۔ آبادی کی رفتار اسی طرح بڑھتی رہی تو دیش کے تمام وسائل اور اس کی ضرورتوں کے سامنے اونٹ میں زیرہ ثابت ہوں گے۔ ہندو آبادی کے 80% سے کم ہونے پر تشویش ظاہر کرنے والوں کے لئے اس سے بھی زیادہ تشویش کا پہلو یہ ہوناچاہئے پچھلی دہائی میں ہندو کو چھوڑ کر سبھی فرقوں میں جنسی تناسب میں بہتری آئی ہیں۔ تشویش کا سوال یہ بھی ہوناچاہئے کہ مسلمانوں کے مقابلے دیش کی اکثریتی ہندو میں بچوں کی موت شرح زیادہ اور اوسط عمر کیوں ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!