تین طلاق کے سخت مخالف مسلم خواتین

خواتین انقلاب نے ہندوستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے۔ اب خواتین کی شادی کیلئے زور زبردستی نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ اپنے من پسند جیون ساتھی کے ساتھ بسنے سے پہلے نوکری یا کام کرنے پرتوجہ مرکوز کرنے لگی ہیں۔آج مسلم خواتین کی ذریعے غیر شادی شدہ یا تنہا عورت (سنگل وومن) کی شکل میں زندگی گزارنا کچھ ملکوں میں قابل قبول روایت بن گئی ہے۔ بیشک اس تبدیلی کی رفتار دھیمی ہے لیکن کیریئر کو ترجیح دینے والی ان خواتین میں یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ آج ایران کے شہروں میں کنواری یا تنہا عورت کا ہونا غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ اس کی اصلی آبادی کے اعدادو شمار تو دستیاب نہیں ہیں لیکن یونیورسٹی کے پروفیسروں ، ریئل اسٹیٹ ایجنٹوں، خاندانوں و نوجوان عورتوں کا ماننا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں بڑی تعداد میں لڑکیوں کے یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور طلاق کے معاملوں میں اضافے کے چلتے یہ نیا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سال2000ء میں ایران میں 50 ہزار طلاق ہوئیں جبکہ سال2010ء میں اس میں تین گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا اور یہ اعدادو شمار ڈیڑھ لاکھ کو پار کرگئے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں تو اضافے کا اندازہ نہیں ہے۔ ادھر ہمارے دیش میں کئی برسوں سے مسلم سماج میں تین طلاق پر بحث جاری ہے لیکن حال میں مسلم خاتون تحریک (وی ایم ایم اے) کی جانب سے کئے گئے سروے کی مانیں توبھلے ہی مسلم علماؤں کی طرف سے اس پر کوئی بھی رائے ہو لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والی مسلم خواتین تین طلاق کے بالکل خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تین طلاق اور کثیر شادیاں روایت پر قانونی طور پر پابندی لگنا چاہئے۔ سروے میں 4710 مسلم خواتین کو شامل کیاگیا تھا۔ 10 ریاستوں میں یہ رائے شماری کرائی گئی تھی۔ سروے میں شامل خواتین نے بتایا کہ ان کے شوہر نے زبانی طلاق دی۔ کچھ عورتوں کے مطابق خط یا ایس ایم ایس سے انہیں طلاق کی اطلاع ملی۔ 78 فیصدی خواتین کی نا منظوری کے باوجود شوہر نے طلاق دی۔
90 فیصدی خواتین نے کہا کہ تین طلاق پر روک لگنی چاہئے۔ 88فیصدی خواتین کی رائے قانونی چارہ جوئی کے تحت طلاق ہونی چاہئے۔ 50 فیصدی خواتین تعلیم یافتہ ہیں جبکہ قومی اوسطاً 53 فیصدی ہے۔ 90 دنوں تک طلاق کی کارروائی آسان ہو تاکہ سمجھوتے کی گنجائش رہے۔90 فیصدی نے کہا کہ دوسری بیوی رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ دیش کی کل1.2 ارب آبادی میں 13 فیصدی مسلمانوں کی حصہ داری ہے۔انڈونیشیا کے بعد بھارت دنیا کا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا دیش ہے۔ محض تین بار طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہونی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!