اندرونی سلامتی پر بے تکی بیان بازی!

دیش پر دہشت گردی کا خطرہ زبردست طریقے سے منڈرا رہا ہے۔شمالی سرحد پر پاکستان جنگ جیسے حالات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ بھارت کے سرحدی دیہات کے باشندوں کو ہر پل موت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس میں کئی جانیں جا چکی ہیں اور ادھر پاکستان کی آتنکی کشتی کو لیکر کانگریس اور بھاجپا کے درمیان سیاسی بیان بازی شروع ہوگئی ہے۔ کانگریس نے مرکز کی بھاجپا سرکارپر اس معاملے کو زبردستی سنسنی خیز بنانے کا الزام لگایا ہے۔ میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس کے ترجمان اجے ماکن کا کہنا ہے کہ مودی سرکار اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے۔ معاملے میں اب تک کئی پہلو سامنے آچکے ہیں اور ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت ہو سکے کہ گجرات کے پوربندر ساحلی سمندری سرحد میں مشتبہ کشتی ایک بڑے آتنکی حملے کا حصہ تھی۔انہوں نے ہندوستانی ساحلی فورس کی کارروائی پر بھی سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کسی طرح کی برآمدگی نہیں ہوئی ہے۔ سرکار سے اس آپریشن کے بارے میں اور مشتبہ کشتی کے پیچھے شامل آتنکی تنظیم کا نام کا انکشاف کرنے کی مانگ کی ہے۔ کیا یہ کشتی ماہی گیروں کی تھی، جسے آتنکی کشتی بتادیا گیا ہے؟ وہیں کانگریس کے الزامات پر جوابی حملہ کرتے ہوئے بھاجپا کے ترجمان سمبت پاترا نے کہا کانگریس ایک بار پھر پاکستان کو آکسیجن دے رہی ہے۔ جب26/11 آتنکی حملہ ہوا تھا اس وقت بھی کانگریس نیتا عجیب وغریب بیان دے رہے تھے۔سنگھ کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملہ سامنے آیا تو آتنک وادیوں کی موت پر سونیا جی آنسو بہا رہی تھیں، ایسا خود ان کے لیڈر سلمان خورشید نے کہا تھا۔ کانگریس ۔ بھاجپا میں جس طرح الزام در الزام کا سلسلہ جاری ہے وہ کسی بھی نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے اور یہ الزام تراشیوں کا سلسلہ یہ ہی بتا رہا ہے کہ ہمارے دیش میں کس طرح اندرونی سلامتی کے معاملے میں مفادات کی سیاست کرنے سے کوئی نہیں بچتا۔سب سے سنگین بات یہ ہے کہ ایسا جانتے ہوئے بھی کیا جاتا ہے کہ اس سے ان عناصر کو ہی شے ملے گی جو بھارت کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔یقینی طور سے یہ الزام تراشی سنگین ہے۔ ایسے نازک دور میں جب پاکستان چوطرفہ بھارت پر حملہ کرنے میں لگا ہوا ہے وہ آتنک وادیوں کو کھلے عام پناہ دئے ہوئے ہے تو ہندوستانی سکیورٹی فورس کی کارروائی پر سوال اٹھانا ملک دشمن طاقتوں کو ہی بڑھاوا دینے جیسا ہوگا۔ تھوڑی دیر کیلئے اگر اس دلیل کومان بھی لیا جائے کہ اس کشتی سے آتنکیوں کا کوئی تعلق نہیں تھا تو بھی ان کی حرکتیں مشتبہ ضرور رہی ہوں گی اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ سمندر کے درمیان اپنے کو دھماکے سے اڑا لینے کا واقعہ کسی خودکش آتنکی گروپ کا ہی کام ہے۔ایک نشیلی چیزوں سے بھری کشتی کو ڈرگس اسمگلر اٹھانے سے رہے؟ چاہے بری ہو یا بحری خودکش دستوں کو پکڑنا تقریباً مشکل ہوتا ہے اس لئے کانگریس کا یہ کہنا آتنکیوں کو پکڑنا چاہئے تھا ، بچکانا دلیل لگتی ہے۔ دیش کی سلامتی ہماری سکیورٹی فورس کے حوصلے کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس طرح کی بے تکی بیان بازی سے بچنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟