بھارت میں 7 ہزارسال پہلے ہی اڑتے تھے جہاز!

تاریخ میں بھلے ہی رائٹ بندھوؤں کا نام دنیا کا پہلا جہاز اڑانے والوں کی حیثیت سے درج ہو جنہوں نے1904ء میں پہلا جہاز اڑا یا تھا مگر بھارت میں تو7 ہزار سال پہلے ہی جہاز اڑا کرتے تھے۔ یہ جہاز نہ صرف ایک ملک سے دوسرے ملک تک جانے کی صلاحیت رکھتے تھے بلکہ ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک جانے کی بھی صلاحیت تھی۔ یہ دعوی کیپٹن آنند جے بوداس نے ہندوستان سائنس کانگریس میں کیا ہے۔ کانگریس میں ایتوار کو ویدوں میں قدیم جہاز تکنیک سے وابستہ متنازعہ اسٹڈی میں یہ دعوی کیا گیا۔ پائلٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے ریٹائرڈ پرنسپل کیپٹن آنند جے بواس کے مطالعے کو لیکر کچھ سائنسدانوں نے نکتہ چینی کی اور کہا کہ یہ تجربہ ان ثبوتوں کی اہمیت کو نظر انداز کرتا ہے جن پر 102 سال پرانی انڈین سائنس کانگریس کا قیام عمل میں آیا تھا۔وگیان کانگریس نے کلچر کے ذریعے سے قدیم سائنس موضوع پر بحث کے دوران کیپٹن بوداس نے ویدک گرانتھوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا کہ قدیم ہندوستان میں جہاز رانی تکنیک موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ رشی وید میں قدیم جہاز رانی تکنیک کا ذکر ہے۔ مہارشی بھاردواج نے 7 ہزار سال پہلے ایسے جہاز کی موجودگی کی بات کہی تھی جو ایک دیش سے دوسرے دیش جاسکتا تھا۔ یہ ہی نہیں وہ ایک بر صغیر سے دوسرے برصغیر یہاں تک کہ ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک بھی جانے میں اہل تھا۔ انہوں نے جہاز رانی تکنیک کے سلسلے میں97 کتابیں لکھی ہیں۔ رامائن میں راون کے پشکر جہاز کا ذکر ہے جس میں اس نے سیتا کا اغوا کر لنگا لے گیا تھا۔ یہ جہاز نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ قدیم ہندوستان میں جہاز بہت ہی بڑے ہوا کرتے تھے۔ جہاز کا ڈھانچہ60X60 فٹ ہوتا تھا اور کئی معاملوں میں تو یہ 200 فٹ سے بھی اونچا ہوتا تھا۔ ویدک جہازوں میں چھوٹے چھوٹے 40 انجن ہوا کرتے تھے۔ راڈار سسٹم بھی تھا جسے اسپاکرکا رہسے کہا جاتا تھا۔بوداس کے بیان پر بحث چھڑنا فطری تھا۔ مرکزی وزیر جہاز رانی پرکاش جاوڑیکر نے کہا کہ میں آج بھی صبح کی شروعات سنسکرت میں خبریں دیکھ کر ہی کرتا ہوں۔ ساری پرانی چیزیں کام کی نہ ہوں لیکن بہت سی چیزیں بیکار بھی نہیں ہیں۔ ویدیانک کلچر میں موجود علم انسانیت کی بہتری کے لئے استعمال کریں۔ جب ہم نئی تحقیق سے دنیا بھر کوحیرت میں ڈالنے والی ایجادات دے سکتے ہیں تو یہ کام ہم کیوں نہیں کرسکتے۔مرکزی وزیر سائنس و تکنالوجی ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا ریاضی اور پیتھاگورس تھیورم کی تلاش بھارت میں ہوئی تھی لیکن اس کا سہرہ دوسرے لوگوں کو ملا۔ سابق مرکزی وزیر ششی تھرور کا کہنا تھا کہ ہندوتو برگیٹ کی بے تکی باتوں کے چلتے قدیم ہندوستانی سائنس کی اصلی کامیابیوں کو مسترد نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہرش وردھن کا مذاق اڑانے والے جدید نظریات کے حامیوں کو جان لینا چاہئے کہ وہ صحیح نہیں ہیں۔ ایک دوسرے اخبار نے دعوی کیا ہے کہ ہندوستانیوں نے سرجری کے لئے 20 طرح کے تیز اور101 طرح کے اوزار بنائے تھے۔ سرجری کے بعد کھال کی اصلی رنگت لوٹانے کے لئے آپریشن کے بعد ایک علاج ہوتا تھا جو آج کے سرجیکل کے دور میں عام استعمال میں نہیں ہے۔
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟