کنٹروورشیل فلم ’’پی کے‘‘ پر منڈراتے سنکٹ کے بادل

فلم پرڈویوسر راج کمارہیرانی کی فلم ’’پی کے‘‘ پر تنازعہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں اس فلم کے خلاف دھرنے مظاہرے اور سنیماہال میں توڑپھوڑ ہورہی ہے۔ اترپردیش ہائی کورٹ کی لکھنؤ پنچ فلم کے خلاف دائرایک مفاد عامہ کی عرضی پر مرکزی حکومت سے معلومات طلب کی ہے۔ کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اپنا موقف رکھیں یہ حکم جسٹس امتیاز مرتضیٰ اور جسٹس ریتوراج اوستھی کی بنچ نے ہندو فرنٹ فار جسٹس کی جانب سے مفاد عامہ کی عرضی پر جاری کی ہے۔ جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ فلم’’پی کے‘‘ میں مذہب خاص کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے متعلق مناظر دکھائے گئے ہیں اور کہاگیا ہے کہ فلم سنسر بورڈ نے غیرقانونی طریقے سے اس فلم کی ریلیز کی اجازت دی ہے اور مانگ کی گئی ہے کہ اس کے دکھانے پر روک لگائی جائے اوراس کے ریلیز کیلئے سرٹیفکیٹ کو بھی منسوخ کیا جائے ۔میں نے فلم’’پی کے‘‘ دیکھی ہے اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے بہت سے لوگوں کو فلم ایک اچھی مزاحیہ لگی ہے تبھی تو یہ ریکارڈ توڑ بزنس کررہی ہے۔19دسمبر کو ریلیز ہونے کے بعدیہ اب تک یہ تین سوکروڑ روپے کماچکی ہے۔ اب تک کاریکارڈ عامر خاں کی فلم ’’دھوم 3‘‘ کا تھا جو 271.82 کروڑروپے کاروبار کرچکی تھی۔ میرا خیال ہے یہ فلم تفریح کے لئے بنائی گئی ہے۔ا س میں پیسے کمانے کے لئے ہندو مذہب ، ریتی رواج ، اقدار اور روایت کااشو کامذاق بنایا گیا ہے۔ فلم کے بارے میں یہ کہناسبھی مذہبوں کے پیشواؤں کو نشانے پر لیتی ہیں یہ صحیح نہیں ہے کہ دوسرے مذہبوں کواس طرح سے نہیں کریدتی ہے جس طرح سے ہندو مذہب کو نشانہ بنالیتی ہے کیا وجہ ہے کہ جب مذہبی پیشواؤں کاتذکرہ اسی اسٹیج پر جب فلموں میں ہوتا ہے تو چوٹ ہمیشہ ہندو مذہب کے روایت پر ہی ہوتی ہے اس سے پہلے ایک فلم ’’او مائی گوڈ‘‘ بھی اسی لائن پر تھی میں فلم کے کئی مناظر کی مثال دے سکتا ہو۔ فلم میں شیوجی کی توہین کی گئی ہیں۔ساتھ ہی سناتن دھرم کی کہانیوں میں اس طرح گھٹیا انداز اور مذاق کا موضوع کبھی فلم میں نہیں دکھائی جاتے تھے جس میں ہاتھ جوڑ کر اپنے پرکھوں کی دہائی دی ہو اور جو ’’پی کے‘‘ کے ڈر سے مارے چھپتا پھیرے ’’پی کے‘‘ کا یہ کہنا گنیش اور کرتکیہ اتنے چھوٹے بھی نہیں ہے بالکل اعتراض آمیز ہے ۔ گنیش اور کرتکیہ دونوں ہی سناتن دھرم کے رادھے دیوتا ہے اس فلم میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے لوگ ڈر اور لالچ کے لئے مندر جاتے ہیں امید بڑھ گئی ہے اور اسی پر جیتے ہیں اور زندگی کے مشکل سفر کو پار کرتے ہیں لوگ مندر اسی امید کے خاطر جاتے ہیں تاکہ ان کی زندگی پر کوئی پریشانی نہ آئے اس لئے نہیں کہ وہ ڈر یا لالچ کے مارے ہوتے ہیں۔ ایک پتھر پر جا کر مورتی بنا کر مندروں میں دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پوری فلم تقریبا ڈھائی گھنٹے کی ہے اور 90 فیصد فلم مندر کے سادھو سنتوں اور مورتیوں کا مذاق اڑایا گیا ہے جب کہ صرف کچھ دیر کے لئے دوسری باتیں کی گئیں ہیں ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسکلاں رام مندر ناسک میں عامر خاں کو لیٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہ مندر والوں نے منع کردیاتھا پھر فلم کے پروڈیوسر مندر کے ترسٹ کو 25ہزار روپیہ ڈان میں دیا ہے جب جاکر یہ سین شوٹ ہوسکا۔ اسی طرح ایک سین میں عامر خاں ایک چرچ میں جاتا ہے اوراپنے ساتھ پوجا کی تھالی اور ایک ناریل لے جاتا ہے جسے وہ یسومسیحی کی مورتی کے سامنے پھوڑنا چاہتا تھا۔یہ سین جے پور کے اول سینٹس چرچ میں شوٹ ہواتھا۔ چرچ والوں نے عامر خاں کو چرچ کے اندر ناریل پھوڑنے کے لئے صاف منع کردیاتھا۔ پھر سمجھوتہ یہ ہوا کہ وہ تھالی اور ناریل کے ساتھ چرچ میں جائے گا لیکن ناریل نہیں پھوڑیگا اگر آپ سین کو غور سے دیکھیں تو ناریل کو چرچ کے اندر پھوڑتے نہیں دکھایا گیا بس پھوڑنے کاایکشن کیاگیا ہے اوردلچسپ بات یہ ہے کہ پروڈیوسر راج کمار ہیرانی ممبئی سے ایک جیسس کا کراس بنا کر لایا تھا جو اس نے اس شخص کو تحفہ میں دے دیا ہے پیسہ دے کر شوٹ کرنے والے ہیرانی اور عامر خاں یہ فلم صرف پیسہ کمانے کے لئے بنائی ہے جوطبقہ آج فلم کے حمایت میں کھڑا ہے وہ بتائے کہ اگر اس فلم میں مسلم سماج یا عیسائی سماج کے تئیں کوئی حصے ہوتے تو کیا وہ اس فلم کو چلنے دیتے یا اس فلم کو ٹیکس فری کردیا جاتا اور بغیر ایڈیٹ کے چلنے دیا جاتا؟ جو لوگ’’پی کے‘‘ کے خلاف کھڑے ہیں اور سماج کی اظہار آزادی کے لئے بڑا خطرہ مان رہے ہیں وہ ایک بات بتادیں کہ بھارت میں سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی کتابوں پر پابندی کیوں لگا رکھی ہیں؟ کیا یہ اظہار آزادی کے خلاف ورزی نہیں ہے؟ اس سے بھی آگے جا کر جب مصنفہ تسلیمہ نسرین نے بھارت میں رہنے کی پناہ مانگی تھیں توانہیں بھارت میں رہنے تک اجازت نہیں ملی تب بھی بھارت کی آزاد خیالی کوکوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح سلمان رشدی کو 2010میں جے پور کے ادب فیسٹول میں آنے سے روک دیا گیاتھا۔ اور زبردست احتجاج کی وجہ سے وہ کولکتہ بھی نہیں جاسکیں۔، سینسر بورڈ نے اس فلم میں دوبارہ کسی بھی کاٹ چھانٹ سے صاف انکار کردیا ہے کہ لیکن کتنی فلمیں ہے جن کی ریلیز کو بھی پابندی لگائی گئی تھیں۔ حال ہی میں جنوبی ہندوستانی فلم ’’شیوم‘‘ کے چار منٹ کے مناظر سینسر بورڈ نے ہٹائے ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مسلم ٹیچروں کے ذریعے ہندو مندروں کو توڑا گیا ہے کیونکہ فلم اس مناظر پر مسلم سماج کااعتراض تھا۔’’پی کے‘‘ فلم کی مخالفت تو مسلم مذہبی پیشوا بھی کررہے ہیں۔ لیکن یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ محض پیسے کمانے کے لئے یہ فلم والے ہندوؤں کی مذہبی آستھاؤں کو ہی نشانہ بناتے ہیں مجھے تویہ عامر خاں اب تک سب سے خراب فلم لگی ہے۔ جیسا کے میں نے کہاں اس بارے میں اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟