سیاسی مریاداؤں کو تار تار کرتے سلمان خورشید!

ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ کانگریسی نیتاؤں کو آخر ہو کیا گیا؟ زبان پر لگام لگانا کچھ نیتاؤں کو سمجھ میں نہیں آرہا۔ راہل گاندھی بھلے ہی پارٹی لیڈروں کوتہذیب سے بات رکھنے کی ہدایت دے رہے ہوں لیکن چناؤ میں آگے نکلنے کی فکر میں یا یوں کہیں چناوی بوکھلاہٹ میں وزیر خارجہ سلمان خورشید جیسے سنجیدہ لیڈر اپنے نائب پردھان کی بھی نہیں سن رہے ہیں۔ پڑھے لکھے اور پیشے سے وکیل اور دیش کے اتنے انتہائی اعزاز ترین عہدے پر فائض سلمان خورشید نے سبھی حدیں پار کردی ہیں۔ انہوں نے بھاجپا کے پی ایم امیدوار اور موجودہ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کر سیاسی مریاداؤں کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے انہیں ’نپنسک‘ بتاڈالا۔یہ ہی نہیں انہوں نے اپنے تبصرے پر بھی افسوس ظاہر کرنے سے صاف منع کردیا۔ منگلوار کو سلمان نے مودی کا نام لئے بغیر کہا تھا ’’کچھ لوگ آتے ہیں اور آپ حفاظت نہیں کرسکتے ، آپ ایک مضبوط انسان نہیں ہیں۔ ہمارا الزام ہے کہ تم نپنسک ہو‘‘مگر بدھوار کو پھر سلمان خورشید نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا کیونکہ2002ء کے گجرات فسادات کے لئے مودی کی اس طرح کی تنقید کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی دوسرا لفظ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچائی تسلیم کریں۔ ’نپنسک‘ لفظ کے استعمال کو سیاسی ڈکشنری میں یہ دکھانے کے لئے کیا گیا ہے کہ کوئی شخص کچھ کرنے میں لاچار ہے۔ مودی پر سلمان کا یہ حملہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے مودی کو کنوئیں کا مینڈک بتایا تھا۔ خورشید اترپردیش اسمبلی چناؤ سے پہلے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر کانگریس صدر سونیا گاندھی کے پھوٹ پھوٹ کر رونے کی بات کہہ کر پارٹی کو مشکل میں ڈال چکے ہیں۔ ویسے ووٹوں کے پولارائزیشن پر فکر مند کانگریس نے اپنے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے ترجمانوں کو مودی کے بارے میں نہ بولنے کی ہدایت دے رکھی ہے۔ اس کے باوجود اپنے سینئر ترجمان کے اس بیان سے پارٹی شش و پنج میں مبتلا ہے۔ سلمان کے بیان پر دہلی سے گاندھی نگر تک جارحانہ ہوئی بھاجپا نے اسے دماغی دیوالیہ پن قراردیا ہے۔ شاہنواز حسین نے کہا کہ سلمان خورشید بھلے ہی بیرونی ملک سے پڑھ کر آئے ہوں لیکن ہمیں امید نہیں ہے کہ وہ ہندوستانی تہذیب کو اس قدر ٹھیس پہنچائیں گے۔ بھاجپا نیتا گوپی ناتھ منڈے نے کہا لوک سبھا چناؤ سے پہلے خورشید کا بیان کانگریسی لیڈروں کی نئی سطح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بیان مضحکہ خیز ہے اور لوک سبھا چناؤ سے پہلے کانگریسی لیڈروں کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ سنجیدہ ساکھ اور ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے نیتاؤں بھی اگر سیاسی تقاضوں کو ٹھینگا دکھانے پر آمادہ ہوگئے تو یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟ وہ سڑک چھاپ ماوالیوں جیسی زبان کا استعمال کررہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں جب انہیں غلطی کی یاد دلائی جاتی ہے تو وہ اقتدار کی اکڑ دکھانے لگتے ہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ سلمان کا یہ بیان کانگریس کو چناؤ میں اقلیتوں کے ووٹ زیادہ دلانے میں مددکرے گا اور الٹے ان کی وجہ سے پارٹی کو نئے تنازعات میں جھونکے گا۔ کانگریسی لیڈروں کو زیادہ توجہ جنتا سے وابستہ مسائل مہنگائی ، کرپشن، بے روزگای اور قانون پر عمل وغیرہ وغیرہ پر دینا چاہئے جس سے ان کے خلاف ماحول بہتر ہو۔ اس طرح کے اوٹ پٹانگ بیانوں سے کانگریس کی ساکھ اور گرے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟