تھرڈ فرنٹ : کہیں کی اینٹ کہیں کاروڑہ، بھان متی نے کنبہ جوڑا!
مبینہ چھوٹے چھوٹے صوبیداروں جن میں کئی پھکے کارتوس ہیں ،کا ماننا ہے کہ لوک سبھا چناؤ کا یہ گیم تھرڈ فرنٹ بنام بی جے پی ہوسکتا ہے۔غیر کانگریس، غیر بی جے پی کے تھرڈ فرنٹ میں 11 دلوں نے پیش کیا متبادل۔ لوک سبھا چناؤ سے پہلے کانگریس اور یوپی اے کو ہرانے اور بھاجپا کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے نئی دہلی میں 11 پارٹیوں نے یکجہتی دکھاتے ہوئے خود کو ان کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔ اس کا اعلان جنتادل(یو) ، کمیونسٹ ، سماجوادی پارٹی، انا درمک سمیت مختلف چھوٹے دلوں کے نیتاؤں کی ایک بیٹھک کے بعد کیا گیا۔ایک گھنٹے سے زیادہ چلی اس بیٹھک کے بعد ماکپا مہا سچو پرکاش کرات نے کہا کہ 11 پارٹیاں یوپی اے کو ہرانے کے لئے مل کر کام کریں گی۔ جس کے اقتدار میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور مہنگائی بڑھی ہے۔ کرات نے کہا کہ بھاجپا اور کانگریس کی نیتیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ بہرحال نیتاؤں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پردھان منتری عہدے کے امیدوار کے الجھے ہوئے مدعے کو چناؤ کے بعد دیکھا جائے گا۔ ان نیتاؤں کا ماننا ہے کہ کانگریس کافی پیچھے چھوٹ گئی ہے اور آئندہ چناؤ میں بی جے پی کے خلاف تھرڈ فرنٹ ہی ریس میں ہے، اچھی پوزیشن میں ہے۔ یہ بہت مشہور کہاوت ہے کہ راجنیتی میں کوئی دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ یہ بات چناؤ سے ٹھیک پہلے کچھ زیادہ ہی سچ دکھائی دیتی ہے۔ دیش کی مرکزی سیاست میں لگ بھگ 18 سالوں سے کسی ایک پارٹی کا راج نہیں رہا ہے اور فی الحال گٹھ بندھن کی سیاست کا کوئی متبادل بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ایسے میں تمام پارٹیاں اپنے اپنے متبادل تلاشنے میں جٹ گئی ہیں۔اس سیاسی ماحول میں ایک بات صاف ہے کہ ایسا کوئی خاص نظریاتی اختلاف ان پارٹیوں کے درمیان نہیں ہے مگر ان پارٹیوں کا کوئی مساوی فائدہ ہے تو وہ بس اتنا کے بھاجپا کی مخالفت کر مرکزی اقتدار میں آنا۔کانگریس کا کہنا ہے کہ تھرڈ فرنٹ کے ریس میں ہونے یا چناؤ کے بعد سرکار بنانے کی باتیں کلپنا اور غلط اندازوں پر ہی ہیں،گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ یوپی اے سرکار میں شامل ایک بھی دل الگ نہیں ہوا ہے۔ ساتھ ہی ووٹر کے سامنے یہ بھی ہے کہ ملائم سنگھ یادو ہوں یا مایاوتی اپنی مخالفت دکھانے کے باوجود دونوں ہی سرکار کو سمرتھن دے رہے ہیں۔ جنتا نے یہ دیکھا ہے اور دیکھ بھی رہی ہے دوسرے یہ جو 11-12 دل ساتھ مل رہے ہیں وہ کیا 272 کا جادوئی آنکڑا پار کر پائیں گے؟ وہ کس کی مدد سے سرکار بنائیں گے؟جس فرنٹ میں ملائم ہوکیا مایاوتی اسے سمرتھن دے سکتی ہیں؟ جس فرنٹ میں نتیش کمار ہوں کیا لالو یادو اسے سمرتھن دے سکتے ہیں؟ کیا جے للتا اور کروناندھی ساتھ ساتھ بیٹھ سکتے ہیں؟جہاں پر جگنموہن ریڈی یا کرن ریڈی میں سے کوئی ہوکیا وہاں چندرا بابو نائیڈو ہوسکتے ہیں؟ اتنے اختلافات ہیں اور تھرڈ فرنٹ سرکار بنانے کے اپنے سپنے کو پورا کرنے میں جٹا ہے۔دوسری طرف بی جے پی کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی ہوا ہے، چوطرفہ طوفان اٹھ رہا ہے۔ کولکاتہ میں دو لاکھ کی بھیڑ باقی سب جگہ بھیڑ ہی بھیڑ یہ سب دیکھ کر کانگریس اور باقی دلوں کے نیتا پریشان ہو اٹھے ہیں۔غیر یوپی اے دلوں کے نیتاؤں نے اپنے کارکرتاؤں کا منوبل بڑھانے اپنی قومی پہچان بنانے یا بچانے کے لئے بھان متی کا یہ کنبہ جوڑا ہے۔ان کا شاید یہ بھی ماننا ہے کہ سمپردائک طاقتوں کی مخالفت کے نام پر ایک بار پھر کانگریس کا سمرتھن لے کر سرکار بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ان کے جیسی بھاشا کی طرف ہی اب اروند کیجریوال اور ان کی ’آپ‘ پارٹی بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ دو دن پہلے ہی کیجریوال نے کہا کہ سمپردائکتا بھرشٹاچار سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔اس بھاشا سے کیجریوال غیر بی جے پی دلوں کے ساتھ لنک کھول سکتے ہیں۔ یعنی تب کیجریوال کے لئے ملائم سنگھ یادواور اپنی لسٹ میں ایسے ہی دیگر کئی نیتا بھرشٹ نہیں رہیں گے۔ وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ دہلی میں بھی کانگریس کے سمرتھن سے سرکار بنا کر وہ ایسا ہی کرچکے ہیں لیکن اس بار سمپردائکتا کے خلاف ایک جٹ ہونے کا چھلاوا چلانے میں وہ استعمال کرتے ہیں تو کتنے کامیاب ہوں گے یہ سوال الگ ہے۔ 1996ء کے اس تجربے سے جنتا کافی آگے نکل گئی ہے اور مودی کے لئے یکطرفہ سمرتھن افان پر ہے۔ ویسے بھی تھرڈ فرنٹ پردھان منتریوں سے بھرا ہے۔ ملائم سنگھ یادو، جے للتا، نتیش کمار، پرکاش کرات، دیو گوڑا سبھی دعویدار ہوسکتے ہیں لیکن عوام اس بار ہوشیار ہے۔ تاملناڈو کی مکھیہ منتری جے للتا کے جنم دن تقریب میں سنسد کی شکل والے وزن دار کیک کا استعمال کرکے بتادیا گیا ہے کہ دیش کی سب سے طاقتور کرسی کے لئے ایک اور اثر دار امیدوار دستیاب ہے۔پشچمی بنگال کی مکھیہ منتری ممتا بنرجی کو جب سے انا ہزارے نے سمرتھن دیا ہے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کے سپنے دیکھنے لگی ہیں۔ راجیو گاندھی کے قتل میں شامل تمام لوگوں کو جیل سے رہا کرنے کا اعلان کر جے للتا آنے والے چناؤ میں اس کی بھرپور فصل کاٹنے کے سپنے دیکھ رہی ہیں لیکن تیسرے مورچے کے اعلان کے وقت آسام گن پریشد اور بیجو جنتادل کے اعلی لیڈروں کی غیر حاضری پر اٹھتے سوالوں نے اس پہل کا رنگ تھوڑا پھیکا تو کر ہی دیا ہے۔
افراتفری میں کئے گئے اس تھرڈ فرنٹ کے اعلان میں کامن منیمم پروگرام کی بات بھی ڈھکے چھپے انداز میں کی گئی۔اس کے اشارے بھی اچھے نہیں ہیں۔ہمارا تو ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ جب جب تھرڈ فرنٹ یعنی غیر کانگریس۔ غیر بھاجپا مرکزی اقتدار میں آیا ہے دیش کئی سال پیچھے چلا گیا ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے صوبیداروں کی سوچ بھی اپنی ریاست تک ہی رہتی ہے اور ایجنڈا بھی ریاست تک محدود رہتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب دیوگوڑا پردھان منتری بنے تھے تو وہ کرناٹک سے باہر ہی نہیں نکل پائے اس لئے دیش کے مفاد میں یہی ہے کہ یا تو بھاجپا کی لیڈر شپ میں کوئی سرکار بنے یا پھر کانگریس کی لیڈر شپ میں۔ یہی دو پارٹیاں ایسی ہیں جن کا قومی ، بین الاقوامی ویژن ہے، نظریہ ہے۔ مجھے تو اس ممکنہ تھرڈ فرنٹ سے کوئی امید نہیں ہے۔ یہ تو بھان متی کا کنبہ ہے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں