چناؤ قریب آتے ہی بڑھی جوڑ توڑ کی سیاست!
عام چناؤ کے لئے مختلف پارٹیوں کے لیڈر اپنی اپنی گوٹیاں فٹ کرنے میں جٹ گئے ہیں۔ سیاسی سرگرمی تیز ہوگئی ہے اور نئے تجزیئے بن بگڑ رہے ہیں۔ کانگریس اور آ جے ڈی کے ساتھ مل کر چناوی اتحاد کا راستہ تلاش رہے ایل جے پی لیڈر رام ولاس پاسوان نے اچانک پالہ بدل کر بھاجپا کی طرف دوڑ لگانا شروع کردی ہے۔ ان کے اچانک بیانوں سے پتہ چلا ہے کہ بہار میں دونوں پارٹیاں مل کر چناؤ لڑنے کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ان کے بیان کے بعدبھاجپا کے ترجمان شاہنواز حسین نے صفائی پیش کی ہے کہ پارٹی نے ان کے بیان کو دیکھا ہے اور پارٹی ہائی کمان اس بارے میں غور کرے گا تبھی پارٹی اپنی کوئی رائے رکھے گی۔دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں ہوا چلتی دیکھ کر رام ولاس پاسوان اس سے ہاتھ ملانے کو اتاولے ہیں۔ اب پاسوان اینڈ سنز کے لئے نریندر مودی 2002 گجرات دنگوں میں بری ہوگئے ہیں کیونکہ ایس آئی ٹی نے انہیں کلین چٹ دے دی ہے اس لئے پاسوان کو بھاجپا اور مودی کے ساتھ آنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بھاجپا کو بھی یہ سوٹ کرتا ہے۔ پاسوان کے مودی کے قریب آنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب بھاجپا اور مودی اچھوتے نہیں رہے۔ اب وہ فرقہ پرست نہیں ہیں۔ ادھر کانگریس کی مدد سے نتیش کمار اور بھاجپا کو پٹخنی دینے کا داؤ تلاش رہے آر جے ڈی چیف لالو پرساد یادو کو ان کے ہی ممبران اسمبلی نے ایسے دھوکر مارا ہے کہ چناؤ میدان میں کودنے سے پہلے ہی وہ چاروں خانے چت نظر آنے لگے۔ ان کے 22 ممبران میں سے13 ممبران اسمبلی نے اچانک پالہ بدلتے ہوئے الگ گروپ بنا کر جنتادل (یو ) میں جانے کا اعلان کردیا۔ لالو اس وقت دہلی میں تھے وہ رات کو ہی پٹنہ پہنچ کر ڈیمیج کنٹرول میں لگ گئے۔ تازہ خبر ہے کہ 13 ممبران میں سے 9 ممبر واپس پارٹی میں لوٹ آئے ہیں اور انہوں نے تحریر میں دیا ہے کہ وہ ابھی بھی اپنی پرانی پارٹی میں ہی ہیں۔ ہوا کا رخ دیکھ کر سیاستداں بڑی تیزی کے ساتھ پالہ بدلنے میں لگے ہیں۔ آندھرا پردیش میں حال ہی میں الگ ہوئے تلنگانہ ریاست کی بڑی تحریک چلانے والی پارٹی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی نے اس ریاست کے الگ وجود کے جواز کی خانہ پوری ہونے سے پہلے ہی کانگریس کو آنکھیں دکھانا شروع کردیا ہے اور سیدھا کہنا شروع کردیا ہے کہ اس کا کانگریس میں ملنے کا کوئی ارادہ نہیں۔وہیں اس پارٹی کے پردھان چندر شیکھر راؤ نے نئے ریاست کے وزیر اعلی کے عہدے کے لئے اپنی گوٹیاں بچھانا شروع کردی ہیں اور ان کی کانگریس صدر سونیا گاندھی سے دو دن پہلے ملاقات ہوئی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ راؤ ایک شرط پر اپنی پارٹی کا کانگریس میں انضمام کرسکتے ہیں اگر انہیں تلنگانہ کا وزیر اعلی بنانے کے لئے کانگریس راضی ہو جائے۔ مگر کانگریس نئی ریاست کے وزیر اعلی ،مرکزی وزیر ایس ۔جے پال ریڈی کو بنانا چاہتی ہے جو اس علاقے سے سب کے مقبول لیڈر مانے جاتے ہیں۔ قاعدے سے تلنگانہ میں وزیر اعلی کانگریس کا ہی بننا چاہئے کیونکہ یونیفائڈ آندھرا پردیش میں کانگریس کی ہی سرکارتھی۔مگر چندرشیکھرراؤ بہت پرانے کھلاڑی ہیں اور رنگ بدلنے میں ماہر ہیں۔ تلنگانہ علاقے کی 17 سیٹوں پر کانگریس بہت امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ جہاں تک بھاجپا کا سوال ہے اس کی نگاہ ہر طبقے اور ذات پات کے ووٹوں پر ہے۔ دلت لیڈر ادت راج کو پارٹی میں شامل کرکے بھاجپا نے دیش کے دلتوں کے درمیان پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہی ان کی اصل خیر خواہ ہے۔ خاص کر اترپردیش میں بسپا چیف مایاوتی کی دلت ووٹوں پر پکڑ کمزور کرنے کے لئے بھاجپا نے دلت کارڈ کھیلا ہے۔ ادت راج انڈین ریوینیو سروس کے افسر رہے ہیں انہوں نے نوکری چھوڑ کر سیاست میں آنے کے لئے جسٹس پارٹی بنائی اور دلتوں میں ان کا کافی اثر ہے اس لئے اترپردیش کے علاوہ دیش کے دیگر صوبوں میں بھی بھاجپا ان کا استعمال کرے گی۔ اگر رام ولاس پاسوان بھاجپا سے اتحاد کر لیتے ہیں تو اس سے بھاجپا کو فائدہ مل سکتا ہے۔ اس سے اسے دوہری کامیابی مل سکتی ہے۔ پہلے آر جے ڈی ۔ کانگریس۔ ایل جے پی کے گٹھ جوڑ کو توڑ کر اپنے خلاف ایک متحد ہونے والے ووٹوں کو تقسیم کرنا تاکہ وہ اس گٹھ جوڑ سے ہونے والے نقصان سے بچ سکیں۔ دوسرے ایل جے پی کو اپنے خیمے میں لانے سے بہار میں دلت ووٹوں پر اپنی پکڑ مضبوط کرنا اس سے کانگریس کے ساتھ ساتھ جنتا دل (یو) کو بھی جھٹکا لگے گا۔ بہار کی اور اترپردیش کی 40 اور80 سیٹوں پر سبھی علاقائی پارٹیوں اور قومی پارٹیوں کی نگاہ لگی ہوئی ہے لیکن نئے سیاسی حالات سے بہار میں چل رہی اتھل پتھل اب دلچسپ موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ رام ولاس پاسوان بھاجپا کے ساتھ جائیں گے یا کانگریس کو جنتادل (یو) کا ساتھ دینے کے لئے منائیں گے؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاسوان جو سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں بھاجپا کے ساتھ آنے کا دکھاوا کرکے کانگریس پر دباؤ بنا رہے ہیں؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں