گجرات وہماچل میں کانگریس ۔ بھاجپا کی اگنی پریکشا


گجرات اور ہماچل پردیش میں نومبر اور دسمبر میں چناؤ کا اعلان ہوتے ہی کانگریس اور بھاجپا میں گجرات کی جنگ جیتنے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بندی شروع ہوچکی ہے۔ کانگریس کی طرف سے اس کی صدر محترمہ سونیا گاندھی نے راجکوٹ میں وزیر اعلی نریندر مودی پر حملہ بولا اور لوگوں سے کہا کہ وکاس کے نام پر لوگوں کو گولیاں ملتی ہیں پھر کیا تھا۔ نریندر مودی جو اپنے تنقیدی لہجہ اپنانے کے لئے مشہور ہیں انہوں نے مہنگائی اور ان کے علاج پر سرکاری خرچ کا معاملہ چھیڑ کر چناؤ ماحول کو گرمادیا ہے۔
اس وقت دونوں صوبوں گجرات۔ ہماچل میں بھاجپا کی حکومتیں ہیں اس مرتبہ گجرات میں سیاسی سرگرمی زیادہ ہے کیونکہ نریندر مودی دوبار وزیر اعلی رہ چکے ہیں اور کیا وہ وکاس کے نعرے کے نام پر تیسری بار ہیٹ ٹرک بنائیں گے لیکن اس بار کے حالات ان کے خلاف ہیں کیونکہ انہیں اپنی پارٹی حریفوں کیشو بھائی پٹیل وغیرہ سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ان کے حریفوں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے کام کا طریقہ ڈکٹیٹرانہ رہا ہے۔ جنتا ان کے اس رویہ سے کافی ناراض لگتی ہے۔
اس وقت تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ جب لڑائی وزیر اعلی بنام مرکزی حکومت چل رہی ہے۔ چناؤ میں ریاستی اشوز نہ اٹھاکر ملکی اشوز خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی۔رسوئی گیس، ڈیزل کے دام وغیرہ کو اچھالا جارہا ہے۔ نشانہ وزیر اعظم اور یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی کو بنایا جارہا ہے۔ دونوں ریاستوں میں بھاجپا حکمراں ہے اس لئے اس کے سامنے چیلنج زیادہ ہے۔ ان انتخابات میں جیت کے بعد بھاجپا لوک سبھا چناؤ میں خود کو مرکز ملیں کانگریس کا متبادل پیش کرسکتی ہے۔ کانگریس سے وابستہ سبھی لیڈر مان رہے ہیں کہ گجرات اور ہماچل میں ہار کا مطلب ہے لوگوں کا بھروسہ کھودینا۔ مہنگائی، کرپشن اور اب ایف ڈی آئی کو لیکر بھارتیہ جنتا پارٹی جس طرح سے گرج رہی ہے اس سے وہ لوگوں میں حکمراں کانگریس کے خلاف منفی رائے قائم کرنا چاہتی ہے اس کے سہارے بھاجپا کو ان دونوں ریاستوں میں کامیابی کی امید بھلے ہی ہو لیکن اس کے لئے ان ریاستوں میں چناؤ جیتنا ایک بڑی آزمائش ہوگی۔ یہاں نریندر مودی کا وقار داؤں پر لگا ہے اس لئے انہوں نے بھاجپا ہائی کمان سے کئی بڑے لیڈروں کو ریاست بھیجنے کی اپیل کی ہے مگر بھاجپا ہائی کمان نریندر مودی کی درخواست پر حیران ہیں۔ پارٹی مان کر چل رہی ہے کہ نریندر مودی اس کے لوک سبھا چناؤ میں وزیر اعظم کے امیدوار ہوں تو وہ ان کے سہارے مرکز میں اقتدار میں لوٹ سکتی ہے مگر مودی کو گجرات میں اپنے سیاسی حریفوں سے کم بھاجپا کے ناراض لیڈروں کی مخالفت کا سامنازیادہ ہے جو ان کے خلاف منفی مہم میں لگے ہیں۔پہلی مرتبہ کیشو بھائی پٹیل اپنی نئی پارٹی کے ساتھ چناوی اکھاڑے میں اتر رہے ہیں۔ بھلے ہی وہ جیت نہ پائیں لیکن بھاجپا کی راہ میں کانٹے ضرور بوسکتے ہیں اس کا فائدہ کانگریس کو پہنچے گا۔ہماچل میں کانگریس اندرونی رسہ کشی کے بعد سنبھل گئی ہے۔ پارٹی ویر بھدر سنگھ کی قیادت میں اپنی قسمت آزما رہی ہے۔ وہیں بھاجپا چناوی تیاریوں میں پچھڑی نظر آرہی ہے۔ اس لئے وہاں ٹکٹوں کو لیکر گھمسان تھما نہیں ہے۔
دونوں ریاستوں کے چناؤ نتائج ملک کے مستقبل کی ہوا طے کریں گے۔ اس وقت گھوٹالوں اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے سبب نشانے پر رہی کانگریس اگر نتائج اپنے حق میں کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ ایک طرح سے یوپی اے کو کلین چٹ ہوگی۔ اس کے بعد وہ بڑھے ہوئے حوصلے کے ساتھ لوک سبھا کے چناؤ کیتیاریوں میں جٹ سکے گی۔ وہیں بھاجپا کے سامنے چیلنج عوام تک اپنی بات صحیح طریقہ سے پہنچانے کا ہے۔ گجرات و ہماچل کے چناؤ دونوں پارٹیوں کانگریس۔ بھاجپا کیلئے سخت اگنی پریکشا ہیں اسی کے سہارے لوک سبھا چناؤ کے لئے آگے کی راہ آسان ہوگی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!