واڈرااثاثہ تنازعہ میں پھنستی حکومت اور کانگریس پارٹی


رابرٹ واڈرا بنام اروند کیجریوال لڑائی تیز ہوتی جارہی ہے۔ ڈی ایل ایف کے ساتھ مبینہ سودوں کے الزام کو لیکر تنازعوں میں گھرے واڈرا نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ وہ سبھی طرح کی بیہودہ باتوں سے نمٹنے کی قوت رکھتے ہیں۔ اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں رابرٹ واڈرا نے پوسٹ کیا ’مینگو پیپل ان بنانا ریپبلک‘‘ اس کے بعدانڈیا اگینسڈ کرپشن نے اپنے تیور مزید سخت کرلئے۔ کیجریوال کے ساتھی کمار وشواس نے مطالبہ کیا ہے بھارت کو بنانا ریپبلک کہہ کر واڈرا نے دیش کی توہین کی ہے اور اس پر وہ معافی مانگیں۔ ادھر واڈرا کے خلاف الزام لگانے والے اروند کیجریوال نے کہا کہ اگر ان کے الزامات غلط ثابت ہوئے تو وہ ہتک عزت کے مقدمے کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ کیجریوال نے ٹوئٹ کیا ہے وہ جلد اس معاملے میں مزید جانکاری دیں گے۔ الزامات کی بات کریں تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے نائب صدر شانتا کمار نے اروندکیجریوال کو لکھے خط میں محترمہ سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی کی شملہ میں پراپرٹی ہونے کے بارے میں پتہ لگانے کی درخواست کی ہے۔ حالانکہ اس خط کے جواب میں آئی اے سی نے کہا کہ ہماچل پردیش میں اس وقت ان کی پارٹی کی سرکار ہے اس لئے شری شانتا کمار جی کے لئے لڑکی پرینکا گاندھی کے اثاثے کے بارے میں پتہ کرنا زیادہ آسان نہیں ہوگا۔ خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس بات کا خلاصہ ہونا چاہئے کہ زمین خریدنے کی اجازت کس حکومت نے دی؟ قابل ذکر ہے کہ ہماچل میں کوئی غیر ہماچلی زمین بغیر اجازت کے نہیں خرید سکتا؟ ادھر ایک سینئر اعلی افسرنے اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پر ایک اخبار کو بتایا کہ رابرٹ واڈرا نے تین سال میں راجستھان کے بیکانیر میں 311 ایکڑ زمین خریدی ہے۔ اسکے علاوہ جیسلمیر میں بھی انہوں نے کئی بیگھہ زمین خریدی ہے۔یہ زمین واڈرا کی الگ الگ کمپنیوں کے نام پر ہے۔ریاستی سرکار کو اس خریدو فروخت کی پوری جانکاری تھی اس میں ناجائز طور پر مدد بھی کی گئی۔ اس کے لئے بیکانیر کے افسر بھی بدلے گئے۔ یہ زمین ریئل ارتھ اسٹیٹس پرائیویٹ لمیٹڈ، اسکائی لائٹ ریالٹی اور اسکائی لائٹ ہاسپٹلٹی پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام پر خریدی گئی ہے۔ منموہن سنگھ سرکار اس معاملے کی جانچ نہیں کرے گی۔ وزیر خزانہ نے نئی دہلی میں سالانہ معاشیاتی مدیروں کی کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ شری واڈرا اور ڈی ایل ایف کے درمیان ہوئے سودے ذاتی نوعیت کے ہیں اور اس میں سرکاری سطح پر کرپشن کی کوئی بات نہیں ہے اس لئے سرکاری سطح پر جانچ کرانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ان کا کہنا ہے دیش کی کوئی بھی پرائیویٹ کمپنی کسی بھی شخص کے ساتھ سودہ کر سکتی ہے اور یہ ذاتی پیسہ ہوتا ہے۔ مسٹر رابرٹ واڈرا پر لگ رہا الزام ہمیں نہیں لگتا کے اتنی آسانی سے دب سکے گا جتنا یہ سرکار چاہ رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے یو ٹیوب میں بہت وقت پہلے ایک فلم دیکھی تھی جس میں ایک معمولی شخص سے ارب پتی کیسے بنا دکھایا گیا تھا۔ یہ فلم کسی غیر ملکی نے بنائی تھی۔ ایسے ہی رابرٹ واڈرا ایک معمولی شخص سے صنعت کار کیسے بن سکتے ہیں ہیں ، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن سوال یہاں یہ ہے کیا انہوں نے ایسا کرنے میں اپنی رشتہ داری کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے؟ مجھے لگتا ہے کیجریوال کے پاس اور بھی معلومات ہیں جو وہ آنے والے دنوں میں عام کریں گے۔ یہ بھی سوچنے کا موضوع ہے کہ رابرٹ واڈرا کانگریس پارٹی کے نہ تو کوئی لیڈر ہیں اور نہ ہی پارٹی ورکر ، پھر بھی ان کے بچاؤ میں وزیر اور کانگریسی نیتا کیوں اترے ہوئے ہیں؟ کانگریس کے حکمت عملی ساز بھی مان رہے ہیں کہ رابرٹ واڈرا معاملے میں اروند کیجریوال جعل میں پھنس گئے ہیں۔ اب طے کیا گیا ہے کہ وزرا اور سینئر لیڈروں کو اس معاملے میں انتہائی سرگرمی دکھانے سے بچنا چاہئے۔ کانگریس کے ایک سینئر ذرائع کے مطابق کیجریوال کے الزامات پر ایک ساتھ کئی وزرا اور نیتاؤں نے واڈرا کے بچاؤ میں اترنے کی پارٹی یا سرکار کی طرف سے کوئی اسکیم نہیں تھی۔ انہوں نے کیجریوال کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد ہی خاص کر وزیر قانون سلمان خورشید ،وزیر ماحولیات جینتی نٹراجن، پارٹی کے ترجمان منیش تیواری کا رد عمل ان کا ذاتی جذبہ بتایا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے تلخ رد عمل پر پارٹی اور سرکار ایک طرح سے کیجریوال کے جعل میں پھنس گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!