ماہر معاشیات کا 9 سالہ اقتصادی ریکارڈ
جانے مانے ماہر معاشیات وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزیر اعظم بنے9 سال پورے ہوچکے ہیں۔ان 9 برسوں میں ان کی اقتصادی پالیسیوں، اقتصادی اصلاحات کی بڑی تعریف ہوتی رہی ہے اور کہا گیا کہ بھارت دنیا کی سب سے تیزی سے ابھرتی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ ساری دنیا میں بھارت کی واہ وا ہ ہونے لگی جبکہ اعدادو شمار کچھ اور ہی کہانی بیاں کررہے ہیں۔ تازہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2011-12 ء کی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی ترقی شرح 6فیصد سے نیچے رہی ہے۔ ان 9سالوں میں یہ دیش کی سب سے کم اقتصادی ترقی شرح ہے۔ سرکار کی ناکامی سے بدحال ہوئی معیشت صاف اشارہ دے رہی ہے کہ چالو مالی سال 2012-13ء میں ترقی کی رفتار اور گھٹ جائے گی۔ حکومت کے تازہ اعدادو شمار کے مطابق سہ ماہی (جنوری تا مارچ)جی ڈی پی کی شرح گھٹ کر 5.3 فیصد پر آگئی ہے۔ گذشتہ برس کی سہ ماہی میں یہ شرح 6.1 فیصدی تھی۔ ترقی گھٹنے کے پیچھے ویسے تو بھاری بھرکم سبسڈی، پنشن اور خوردہ میں ایف ڈی آئی جیسے اٹکے پڑے بل ، صنعتی سیکٹر کی بدحالی اور تلہٹی پر پہنچا روپیہ، سپلائی کے مورچے پر بدحالی اور رکی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری جیسی کئی وجوہات ہیں لیکن ذراعت اور پیدا وار سیکٹر کی خراب حالت اور ہماری معیشت کے لئے سب سے تشویشناک ہے۔ تیزی سے اقتصادی ترقی شرح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مینوفیکچرنگ ، زراعت اور کھدائی سیکٹر کی حالت ثابت ہورہی ہے۔ دیش کی معیشت میں تقریباً40فیصدی حصے داری رکھنے والے سیکٹروں کی خستہ حالی عام جنتا کے مفادات سے سیدھے طور پر جڑی ہے۔ جی ڈی پی پر سرکار کے اعدادو شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ان تینوں سیکٹروں میں اس مالی سال کے دوران بد سے بدتر ہوتی گئی ہے۔مینوفیکچرنگ سیکٹر میں مانا جارہا تھا کہ زراعت سیکٹر کی بہتر کارکردگی، صنعتی سیکٹر کی بد حالی کو شاید روک دے گی۔ لیکن چوتھی سہ ماہی میں ذراعت سیکٹر کی شرح گھٹ کر1.7 فیصدی رہ گئی ہے جو2010-11ء کی سہ ماہی میں 7.5 فیصدی تھی۔ جس مینوفیکچرنگ سیکٹر کے دمدار مظاہرے کے سبب ہماری معیشت کی شرح ترقی دوہرے نمبروں کے نزدیک پہنچی تھی اسی مینوفیکچرنگ سیکٹر کی زرعی شرح چوتھی سہ ماہی میں منفی رہ گئی۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں پہلی کے ہم نے اس کے بجائے اس سروس سیکٹر کو زیادہ اہمیت دینی شروع کردی جو فی الحال چلے ایک بوڑھی گائے کی طرح لگے لیکن اس کے اکیلے بوتے پر ہم مضبوط معیشت نہیں بن سکتے۔ دوسرے چین سے برآمدات نے بھی ہمارے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر برا اثر ڈالا ہے اس سے روزگار پر بھی منفی اثر پڑا ہے کیونکہ بڑھی تیل قیمتوں کے سبب مہنگائی کا دور ابھی بنا رہے گا۔ ایسے میں معاشی ترقی شرح میں اضافے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ جس طرح سے یہ یو پی اے سرکار اور اس کے سربراہ چل رہے ہیں اس سے تو ہمیں بھارت کی معیشت سدھرنے کے امکان کم ہی نظر آتے ہیں۔ اقتصادی مندی کے دور کی تو یہ شروعات ہے آگے دیکھتے رہئے کیا کیا ہوتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں