کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کھودا پہاڑ نکلا چوہا


کانگریس پارٹی کی 126 سال پرانی تاریخ میں کم ہی موقعے آئے ہیں جب کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگوں سے کوئی ٹھوس باتیں نکل کر آئی ہوں۔ پیرکو طویل وقفے کی میٹنگ میں بھی یہ ہی ہوا۔ میٹنگ رسمی انداز میں شروع ہوئی اور اسی انداز میں ختم بھی ہوگئی۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ اسمبلی چناؤ میں پارٹی کی خراب کارکردگی اور یوپی اے سرکار کی گھیرا بندی جیسے حالات اور پارٹی کے مستقبل کی طرف اشارہ کرنے والے راشٹرپتی چناؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کی میٹنگ کچھ ٹھوس بڑے نتیجوں کے ساتھ اختتام پذیرہوگی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میٹنگ کے بعد جاری بیان میں اسے محض معمول کی میٹنگ ہی کہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ابتدا میں پارٹی صدر سونیا گاندھی نے جس تیور سے پارٹی کے ورکروں کو 2014ء کے لوک سبھا چناؤ اور اس کے پہلے ہونے والے اسمبلی چناؤ کی تیاری میں لگنے کی اپیل کی اس سے ذرا بھی امید نہیں بنتی۔ سونیا کاخطاب نہ تو کانگریسیوں میں حوصلہ پیدا کرنے والا رہا اور نہ ہی اس سے یوپی اے II- سرکار کے کام کاج کے طور طریقے ہی بدلنے والے ہیں۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی اور وزیر اعظم منموہن سنگھ دونوں کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت خاص کر مندی کو دیکھتے ہوئے انوکھا کام کررہی ہے۔ دونوں نے کہا کہ اپوزیشن اور سول سوسائٹی حکومت پر غیر ضروری الزام لگا رہے ہیں لیکن کانگریس صدر نے اس کے علاوہ دو باتیں اور بھی کہیں کہ پارٹی پوری طاقت سے سرکار کے ساتھ ہے اور پارٹی کے نیتا گروپ بندی چھوڑ کر عام ورکر پر بھروسہ کریں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ظاہر ہے یہ دونوں باتیں بھی انہوں نے پہلی بار نہیں کہیں۔ کچھ حد تک یہ امکان تھا کہ سونیا گاندھی وزیر اعظم کا بچاؤ کریں گی اور انہوں نے کیا بھی۔ لیکن اس پر غور کیا جانا چاہئے تھا کہ آخر ایسی نوبت کیوں آئی؟ یہ عام بات نہیں ہے کہ وزیر اعظم کی جو ساکھ کبھی کانگریس کے لئے مضبوط کوج کا کام کرتی تھی اس کی حفاظت کے لئے خود پارٹی صدر کو آگے آنا پڑا۔ سونیا گاندھی کی مانیں تو کوئلہ کھانوں کے الاٹمنٹ کو لیکر وزیر اعظم پر حال میں لگے الزام ایک سازش کا حصہ ہیں جو اپوزیشن پارٹیوں اور کانگریس مخالف عناصر کی طرف سے رچی گئی ہے۔ اگرچہ حقیقت میں ایسا ہے تو پھر مرکزی ویجی لنس کمیشن کی پہل پر سی بی آئی کس چیز کی جانچ کررہی ہے اور خود سرکار کوئلہ کھدان الاٹمنٹ عمل کو درست کرنے کیوں جارہی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئلہ کھدانوں کے الاٹمنٹ میں کچھ غلط نہیں ہوا تو کمپٹرولر و اڈیٹر جنرل یعنی کیگ کی رپورٹ کس طرف اشارہ کرنے کے ساتھ1 لاکھ 80 ہزار کروڑ روپے کا محصول کے نقصان کا اندازہ کیسے لگا رہی ہے؟ کیا یہ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کیگ بھی اسی سازش کا حصہ ہے جو مبینہ طور پر وزیر اعظم کے خلاف رچی گئی؟ ورکنگ کمیٹی کی اجتماعی رائے یہ بھی تھی کہ کانگریس کو نہ صرف اپنے مخالفین کے سامنے بلکہ اپنے ساتھیوں کے سامنے بھی کہیں بھی جھکنے اور کمزور پڑنا نہیں دیکھانا چاہئے اس کا کیا مطلب نکالا جائے؟ یہ کہ کانگریس کے ترجمان اب ٹی وی پر زیادہ زور زور سے بولتے نظر آئیں گے؟ یا وہ بچے دو سالوں میں اپنی سرکار اور اپنے ساتھیوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے گرتی ہے تو گر جائے۔ انہیں منانے کیلئے پارٹی ان کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی؟ آج کانگریس سیاسی اور اقتصادی دونوں محاذ پر اندھی گلی میں کھڑی ہے۔زمینی لیڈر شپ کی کمی میں وہ تاش کے پتے پھینکنے کی طرز پر ریاستوں میں لیڈر شپ میں تبدیلی کرتی رہتی ہے اور اوپر سے تھونپے گئے ایسے لیڈر عام ورکروں اور لوگوں کی طرف دیکھنے کے بجائے دہلی دربار کی طرف دیکھنے کے عادی بن گئے ہیں۔ ایسی لیڈر شپ نہ تو لوگوں کا بھروسہ جیت سکتی ہے اور نہ ہی ورکروں میں نیا جوش پیدا کرسکتی ہے، جس کی کانگریس کو آج سخت ضرورت ہے۔ کانگریس لیڈر شپ اگر برنگ اشو پر صاف موقف اختیار کرنے سے کتراتی ہے تو ورکروں میں سرگرمی لانے کی اس کی کوشش کل ملا کر کاغذی قواعد ہی ثابت ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!