کرپٹ جن سیوکوں کے خلاف راستہ کھلا


Published On 3rd February 2012
انل نریندر
سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ میں صاف کردیا ہے کہ کرپشن کے الزامات سے گھرے وزراء اور ایم پی و ممبراسمبلی واعلی حکام اب کارروائی کی منظوری لمبی ہونے کی آڑ میں زیادہ دن تک بچ نہیں پائیں گے۔ سپریم کورٹ نے اپنے یہ دوررس فیصلہ جنتا پارٹی کے صدر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی ایک عرضی پر دیا جس میں بتایاگیا تھا کہ کس طرح سے پی ایم او نے اے راجہ کے خلاف کرپشن کامقدمہ مہینوں لٹکا کر رکھا۔ اور کوئی جواب نہیں دیا لوک سیوکوں پر مقدمہ درج کرنے کے لئے میعاد مقرر کرنے سے متعلق ڈاکٹر سوامی کی اس عرضی کو قبول کرلیا اور عدالت نے جہاں مرکزی سرکار کو جھٹکا دیا وہیں اس کے رخ کی دوررس اہمیت یہ ہے کہ اس سے عام آدمی کو کسی بھی عوامی نمائندے کے خلاف وزیراعظم یا عدالت کے پاس جانے کا راستہ کھل گیا ہے۔ بڑی عدالت نے صاف صاف کہا ہے کہ کرپشن انسداد قانون کے کسی بھی عوامی نمائندے کے خلاف شکایت درج عام آدمی کا آئینی حق ہے درصل وزیراعظم دفتر نے سپریم کورٹ میں دائر حلف نامہ میں کہاتھا کہ سوامی کا خط صحیح نہیں تھا کیونکہ سوامی کو طویل عرصے کے بعد پی ایم او سے ملے جواب پر اعتراض تھا۔ اس لئے عزت مآب عدالت نے یہ بھی کہا تھاکہ اگر چار مہینے کے اندر ملزم شخص کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں ملتی تو مان لیا جانا چاہئے کہ متعلقہ اتھارٹی نے اجازت دے دی ہے۔ یہ معاملہ ماہ نومبر 2008کا ہے جب ٹو جی اسپیکٹرم معاملے میں اس وقت کے وزیرمواصلات کے کردار کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے وزیراعظم کو خط لکھ کراے راجہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بارے میں کہاتھا وزیراعظم کے دفتر سے اس کا جواب قریب سولہ مہینے کے بعد مارچ 2010کوملاتھا۔ جس میں کہاگیا تھا کہ ان کی عرضی قبل ازوقت ہے۔ یعنی تب حکومت معاملے کی تہہ میں جانے کی خواہش مند نہیں تھی۔ صرف یہی نہیں ٹوجی گھوٹالے کے متعلق اہم مقدموں کو سوامی عدالت میں لے گئے ہیں۔ یہ بھی کہ سوامی کی پہل کے بعد اے راجہ کو وزارت چھوڑنی پڑی تھی۔ اور ان کی گرفتاری ہوئی سپریم کورٹ اس فیصلے سے وزراء واعلی افسروں کی ایک بڑی سیکورٹی دیوار ضرور ٹوٹ گئی ہے جس کی آڑ میں وہ عام طور پر کرپٹ جن سیوک کرپشن کامعاملہ ہوتے ہوئے بھی بچ نکلتے تھے اب تک ہوتا یہ تھا کہ کسی سرکاری افسر یا عوامی نمائندے کے خلاف کرپشن کا معاملہ درج کرنے سے پہلے سرکار سے اجازت لینی پڑتی ہے اور اکثر ایسی اجازت کی عرضیوں پر یاتو کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تھا یا اجازت نہیں دی جاتی ہے اگر اجازت نہ ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہوتو آسان طریقہ کوئی فیصلہ نہ لیناہوتا تھا۔ تازہ فیصلے نے دوبڑے پیمانے رائج کردیئے ہیں پہلا یہ کرپشن کامعاملہ چلانے کی عرضی کو حکومت یقینی لمبی میعاد تک نہیں ٹال سکتی اور دوسرا ہمارے جمہوریت میں ہر شہری کو یہ حق ہے وہ سرکار پر کرپشن کے معاملوں میں کارروائی کے لئے دباؤ ڈالے یہ ایک دوررس اثر ڈالنے والے اہم فیصلہ ہے۔
 Anil Narendra, Corruption, Daily Pratap, P. Chidambaram, Subramaniam Swamy, Supreme Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!