اتراکھنڈ میں بھاجپا کا مستقبل بھون چندر کھنڈوری کی ساکھ پر ٹکا ہے



Published On 29th January 2012
انل نریندر
بھارتیہ جنتا پارٹی کو اتراکھنڈ میں چناؤ سے پہلے شری بھون چندر کھنڈوری کو رمیش پوکھریال نشنک کی جگہ وزیر اعلی بنانا ایک جوا ہے۔نشنک کرپشن کے الزامات لگنے کے بعد کافی بدنام ہوچکے تھے۔ کھنڈوری کی ہمیشہ سے صاف ستھری ساکھ رہی ہے اور انہوں نے ریاست کے لئے کام بھی کافی کئے لیکن ان کی مشکل یہ ہے کہ ایک سخت منتظم ہونے کے سبب وہ اپنے ممبران اسمبلی کی جائز ناجائز باتیں نہیں مانتے۔ اپنے اڑیل رویئے کی وجہ سے ہی انہیں ہٹانا پڑا تھا لیکن بھاجپا ہائی کمان کو لگا کہ نشنک نے تو لٹیا ڈوبادی۔ اس لئے مجبوراً دوبارہ کھنڈوری کولاکر جوا کھیلنا پڑا۔ بھاجپا کی ریاست میں دوبارہ برسراقتدار آنے کا خواب اب بھون چندر کھنڈوری کی ساکھ پر ہی ٹکا ہوا ہے۔ اتراکھنڈ ان بہت کم ریاستوں میں سے ہے جہاں لوک آیکت کی تقرری ہوئی ہے اور اس کی عام طور پر انا ہزارے نے اس کی کھلے طور پر سراہنا بھی کی ہے۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے پارٹی میں اتحاد نہیں ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلی نارائن دت تیواری نے چناؤ کے عین پہلے خود کو وزیر اعلی کی دوڑ میں شامل کرلیا ہے۔ بدھ کو انہوں نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو وہ دو ایک برسوں تک وزیر اعلی کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ تیواری نینی تال ضلع کے رام نگر میں کانگریس امیدوار امریتا راوت کے حق میں چناؤ مہم کے لئے پہنچے تھے۔ امریتا راوت کانگریسی نیتا ستپال جی مہاراج کی بیوی ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو کیوں وہ وزیر اعلی بنیں گے؟اس پر انہوں نے اخبار نویسوں سے کہا کہ ایک یا دو سال میں وزیر اعلی کا عہدہ سنبھال سکتا ہوں۔دوسری جانب کانگریس امیدوار امریتا راوت کے شوہر اور ایم پی ستپال مہاراج نے کہا کہ تیواری پارٹی کے سینئر لیڈر ہیں اور سبھی ان کا احترام کرتے ہیں۔ جہاں تک وزیر اعلی کے عہدے کا سوال ہے تو اسے کانگریس صدر سونیا گاندھی کو طے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کانگریسیوں میں زبردست جوش ہے اور ان کے تجربے کی بنیاد پر پارٹی اسمبلی چناؤ میں کامیابی حاصل کرے گی۔ ویسے نئی حد بندی نے اتراکھنڈ کی چناوی تصویر بدل دی ہے۔ نئی حد بندی سے اس پہاڑی ریاست میں میدانی علاقے کا دبدبہ بڑھ گیا ہے اور پہاڑ کی سیٹیں کم ہوگئی ہیں۔ اس سے سیاسی پارٹیوں کی ہار جیت کا حساب کتاب گڑ بڑ ہوگیا ہے۔
یہ اندیشہ ظاہر کیا جانے لگا ہے کہ اس مرتبہ بھلے ہی پہاڑی علاقے سے وزیر اعلی بن جائے لیکن اگلے چناؤ میں یہ بات زور پکڑ سکتی ہے کہ میدان کا نیتا پہاڑی ریاست کا وزیراعلی بنے۔ خود وزیر اعلی بھون چندر کھنڈوری مانتے ہیں کہ نئی حد بندی پہاڑ کے مفاد میں نہیں ہے۔ نئی حد بندی کے بعد اتراکھنڈ میں 36 سیٹیں میدانی علاقے میں اور 34 سیٹیں پہاڑی علاقے میں آئی ہیں۔ اس سے پہلے تک 38 سیٹیں پہاڑ کے علاقے میں تھیں اور 32 سیٹیں میدانی علاقے میں۔ وزیر اعلی کھنڈوری پہاڑ سے چناؤ لڑتے آرہے ہیں لیکن اس بات وہ میدانی سیٹ کوٹ دوار سے چناؤ لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح سابق وزیر اعلی رمیش پوکھریال نشنک ڈوئی والا سے چناؤ لڑ رہے ہیں۔ اتراکھنڈ ایک ایسی پہاڑی ریاست ہے جس کا آدھا حصہ میدانی ہے اور آدھا حصہ پہاڑی۔ اتراکھنڈ اسمبلی میں70 سیٹیں ہیں جس میں درجہ فہرست ذاتوں کے لئے 12 و شیڈول قبائل برادیوں کے لئے 3 سیٹیں ریزرو ہیں۔ حال ہی میں ایک سروے کے مطابق بھون چندر کھنڈوری کے وزیر اعلی بننے سے بھاجپا کا پلڑا بھاری ہے اور وہ پھر اقتدار میں آجائے گی جبکہ کانگریس بہت زیادہ مطمئن ہے کہ اگلی حکومت وہ ہی بنانے جارہی ہے۔
Anil Narendra, BC Khanduri, BJP, Congress, Daily Pratap, Nishank, Uttara Khand, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!