استعفیٰ سے اٹھے درجنوں سوال!

پیر کی رات اچانک سیاسی دھماکہ ہو گیا ۔نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اس نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی حالانکہ صحت کے اسباب کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ کی وجہ بتائی گئی ہے ۔ان کے استعفیٰ سے اپوزیشن بھی حیران تھی ۔اس سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا ۔ایسا نہیں کہ بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں پہلے کسی نائب صدر نے عہدے سے استعفیٰ نہ دیا ہو۔جیسے شری وی وی گری ،وینکٹ رمن نے بھی استعفیٰ دیا تھا لیکن مرضی سے دیا تھا۔ڈاکٹر شنکر دیال شرما نے بھی عہدے سے استعفیٰ دیا تھالیکن وہ سب مرضی سے صدر بننے کے لئے دیے گئے تھے ۔شری دھنکھڑ سے تو لگتا ہے کہ استعفیٰ زبردستی لیا گیا ۔انہوںنے اپنے استعفیٰ کا سبب خرابی صحت بتایا لیکن یہ بات کسی کے گلے نہیں اتر رہی ہے ۔مانسون سیشن کے پہلے دن انہوں نے پورے دن راجیہ سبھا کی کاروائی چلائی ۔کہیں بھی یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنے بیمار ہیں کہ ایوان کو نہیںچلا سکتے ۔ان کے استعفیٰ کے پیچھے کئی طرح کے تجزیہ ہو رہے ہیں ۔میڈیا میں ان کے استعفیٰ کے پیچھے تبصرے چل رہے ہیں میں اس آرٹیکل میں کچھ اہم اخبارات کے اداریوں میں تجزیوںکا تذکرہ کررہا ہوں اس سے قارئین کو کچھ سمجھ میں آجائے گا امید کرتا ہوں بڑے اخباروں نے بھی استعفیٰ کی اصلی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے ۔اس اچانک اٹھائے گئے قدم کے پیچھے زیادہ تر تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج یشونت ورما کے یہاں مبینہ نقدی برآمدگی کے چلتے مہا ابھیوگ پرستاو¿ لانے کو لے کر دو الگ الگ دستخطی مہم کی شروعات ہوئی ۔مانسون سیشن کی شروعات سے پہلے پہلے ہی سرکار نے صاف کردیا گیا تھا کہ وہ جسٹس ورما کو ہٹانے کے لئے پرستاو¿ لائے گی ۔تاکہ جسٹس کو ہٹانے کی کاروائی اتفاق رائے سے ہو ۔اور جانبدارنہ نہ سمجھا جائے ۔دی انڈین ایکسپریس نے ایک اپوزیشن ایم پی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ وہ اس کاروائی سے این ڈی اے ممبران کو دور رکھنا چاہتے تھے کہ اس مسئلے پر سرکار اخلاق بلندیاں حاصل کر لے لیکن دھنکھڑ جی نے اپوزیشن کا پرستاو¿ قبول کر سرکار کو ناراض کر دیا ۔یہ پرستاو¿ راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہر ی ونش نے خارج کر دیا تھا ۔ہوسکتا ہے کہ ایوان چلانے کے ان کے طریقے کو لے کر حکمراں فریق کی سینئر لیڈر شپ سے بھی ان کا اختلاف ہوا ہو ۔اسی برس اپریل میں انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو لے کر کہا تھا کہ عدالتیں صدر کو حکم نہیں دے سکتیں ۔یہی نہیں انہیں اس وقت کے چیف جسٹس سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ نیوکلیئر میزائل سنسد پر چلا رہے ہیں ۔کوئی بھی سرکار یہ نہیں چاہتی کہ ایگزیکٹوکا عدلیہ سے اتنا سیدھا ٹکراو¿ ہوا ۔یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے ۔بھاجپا اعلیٰ کمان کے دھنکھڑ سے ناراض ہونے کی یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے ۔شری دھنکھڑ ایک واحد نائب صدر ہیں جن کے خلاف اپوزیشن نے مواخذہ تحریک لانے کا اہم ترین قدم اٹھایا ۔دھنکھڑ جس آئینی عہدے پر بیٹھ تھے ،وہاں ڈرامہ نہیں ،تحمل کی ضرورت تھی ۔یہ کہنا ناانصافی پر مبنی نہیںہوگا دھنکھڑ کئی بار نا تو تحمل میں نظر آئے اور نہ ہی اپوزیشن انہوں نے کئی بار ایسی زبان اور تیور اپنائے جو آئینی عہدے کے مطابق نہیں کہے جاسکتے ۔ہندوستان ٹائمس نے اپنے اداریہ میں لکھا ،جگدیپ دھنکھڑ نے کچھ ہی دن پہلے کہا تھا کہ میں صحیح وقت پر ریٹائر ہوں گا ۔اگست 2027 میں اگرا یشور کا کوئی دخل نہ ہو تو ۔لیکن انہوں نے کچھ ہی دنوں بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیا ۔انہیں راجیہ سبھا میں کوئی باقاعدہ وداعی تک نہیں دی گئی ۔اپوزیشن کہہ رہا ہے کہ سرکار کو چاہیے کہ وہ اس کی وجہ بتائے تاکہ بغیر بنیاد والی قیاس آرائیاں اور سازش کی تھیوری کو درکنار کیا جاسکے ۔اخبار لکھتا ہے کہ کیا دھنکھڑ نے کوئی ریڈ لائن پار کرلی تھی ؟ اگرایسا ہے تو کیوں اور کیسے ؟ دیش کو اس بارے میں جاننے کا پورا حق ہے ۔نائب صدر کا عہدہ آئینی عہدہ ہے ،اس کا وقار اور پاکیزگی مشتبہ اور افواہوں کے دائرے میں نہیں آنی چاہیے ۔یہ صحیح ہے کہ ان کی صحت پچھلے کچھ دنوں سے خراب تھی لیکن وہ ٹھیک ہو کر عام زندگی میں لوٹ آئے تھے ۔ایک سینئر صحافی نے لکھا کہ دھنکھڑ جی نے پیر کو ایوان شروع ہوتے ہی اعلان کر دیا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یشونت ورما کو ہٹانے کے لئے اپوزیشن کی تجویز انہوں نے قبول کر لی ہے ۔دھنکھڑ جانتے تھے کہ سرکار لوک سبھا میں پہلے ہی نوٹس دے چکی ہے ۔انہوں نے سرکار کو مات دے دی دھنکھڑ کا استعفیٰ یہ تو ثابت کرتا ہے کہ بھاجپا میں اب بھی اعلیٰ کمان پوری طاقت سے کام کرتا ہے ۔ان کی خواہش کے خلاف کوئی بھی جانے کی کوشش کرے گا تو اسے دودھ میں سے مکھی نکالنے کا کام ہوگا ۔لیکن ہمارا خیال ہے کہ دھنکھڑ کا اس ڈھنگ سے استعفیٰ یا نکالنا ) بھاجپا کے لئے اچھا اشارہ نہیں ماناجاسکتا ۔وہیں ایک دوسرا ستیہ پال ملک نہ کھڑا ہوجائے۔دھنکھڑ کے معاملے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بھاجپا ایک کمزور پارٹی نہیں کہلانا چاہتی ۔جنتا یہ بھی نہیں بھولی کہ کس طرح سے جے پی نڈا نے کہا تھا ”نتھنگ ول گو آن ریکارڈ “آنلی واٹ آئی سے ول گو آن ریکارڈ ۔اشارہ صاف تھا کہ دھنکھڑ جی آپ کے جانے کا وقت آگیا ہے ۔قیاس تو یہ بھی لگایاجارہا ہے کہ کسی بڑے نیتا کو مطمئن کرنے کے لئے دھنکھڑ جی کی قربانی دی گئی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘