دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا!
حالانکہ جموں کشمیر کئی دہائیوں سے دہشت گردی سے متاثر ہے اور اس کا اثر مقامی آبادی پر بھی پڑتا ہے ۔کہا یہ بھی جاتا ہے کے کچھ مقامی کشمیریوں کو بھی ان سڑک پار سے آئے دہشت گردوں کی پوشیدہ حمایت ہے۔شاید یہی سمجھ کر پاکستان نے پہل گام کے سیاحتی مقام بیسرن پر حملہ کروایا دہشت گردوں کے آقاﺅ نے سوچا ہوگا کے بیسرن میں چن چن کر مذہبی شناخت پر بے قصور لوگوں کو مارا جائے تو اس سے بھارت کے اندر ہندو مسلم ٹکراﺅ بڑھےگا اور بھارت میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو جائے گی اور بٹ جائے گا لیکن ہوا اس کے الٹا ۔سارا دیش متحد ہو کر دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہو گیا ۔تمام سیاسی پارٹیوں نے سرکار کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ۔اس کا شاید پاکستان نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا ۔وہی بات مذہب کی تو پاکستان کے سامنے جیتی جاگتی مثال آدل حسین شاہ کی ہے اس نے بیسرن میں جب دہشت گردوں نے بے قصور سیاحوں پر حملہ کیا تو آدل حسین ایک دہشت گرد سے بھڑ گیا پہلے تو اس نے اس دہشت گرد سے کہا کے وہ بے قصور سیاحوں پر حملہ کرےں یہ ہماری روزی روٹی کا ذریعہ ہے ہمارے مہمان ہیں لیکن جب وہ آتنکی نہیں مانا تو آدل نے اس سے ٹکر لے لی اور اس کی رائفل چھیننے کی کوشش کی ۔اس لڑائی میں دہشت گرد نے گولی چلا دی اور آدل حسین کے جسم کو چھلی کر ڈالا۔آدل حسین شاہ گریب خاندان اور بہادر لڑکا تھا ۔اس نے درجنوں ہندوﺅ کی جان بچائی تو اگر وہ نہ ان سے ٹکراتا تو پتا نہیں کتنے لوگ اور شہید ہو جاتے۔آدل ایک مسلمان تھا جس نے درجنوں ہندوﺅ کو بچایا اور کشمیرت کی لاج رکھی ۔پوری کشمیر وادی میں اس بے رہمانہ قتل عام کے خلاف کشمیری سڑکوں پر اتر آئے اور ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کے جب مقامی کشمیری دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر اترے ہوں ۔آتنکی حملہ کی مخالفت میں جموں کشمیر میں ریاست کے مسلمانوں نے نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد اپنا غصہ جتایا اور پاکستان کے خلاف نارے بازی کی پورے دیش میں مسلمانوں نے اس حملہ کے احتجاج میں مظاہرے کئے ۔سنبھل ،سہارن پور ،بریلی ،ہاپوڑ ،بلند شہر سمیت یوپی کے ضلعوں میں مسلمانوں نے دہشت گردی کی واردات پر مذمت کی اور پاکستان کے خلاف نارے باری لگائی اور سخت کارروائی کی مانگ کی ۔کشمیر کے پہل گام شہر میں بیسرن میں آتنکی حملہ میں 26 لوگوں کی موت ہو گئی تھی جن میں زیادہ تر سیاحہ تھے ۔سنبھل جیسے حساس ضلع کی کئی مساجد میں جمعہ کی نمازادا کرنے کےلئے کالی پٹیا باندھ کر پہنچے اور پاکستان کے خلاف نمازی شاہی جامع مسجد میں نماز پڑھ کر نکلے شاکر حسین نے کہا کے یہ جن غیر مسلح لوگوں کے ساتھ زلم ہوا اور ہماری بہنوں کا سہاگ اجاڑ دیا گیا ۔بے حد کی دکھ کی بات ہے میری سرکار سے گزارش ہے کے ان دہشت گردوں کو ایسا سبق ملے کی آنی والی نسلے بھی یاد رکھے ۔ادھر دہلی میں بازار بند رہے ان میں کناٹ پلیس ،صدر بازار،چاندنی چوک،جیسے دہلی کے مشہور شاپنگ ہب سمیت 900 سے زیادہ بازار جمعہ کو ویران نظر آئے ۔کیوں کے تاجروں نے پہل گام آتنکی حملے کے خلاف دہلی بند کا اعلان کیا تھا ۔کپڑا ،مسالے ،برتن،صرافہ بازار کے مختلف تاجروں کی انجمنوں نے بھی دکانیں بند رکھیں ۔دہلی میں 8 لاکھ سے زیادہ دکانیں بند رہیں ۔اس کے نتیجہ میں دن بھر میں 1500 کروڑ روپے کا تجارتی گھاٹا ہوا ۔جموں کشمیر میں ایسے الزام بھی سامنے آئے کے وہاں دہشت گردی کے حملے کے خلاف عام طور پر احتجاج سخت نہیں نظر آتا مگرپہل گام میں آتنکی نے بربریت کی کی ساری حدیں پار کی دیں اور جس طرح 26 سیاحوں کو مار ڈالا اس کے بعد کشمیری عوام کا غصہ بنا ہواہے ۔خاص کر اننت ناگ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو دہشت گردوں کا گڑمانا جاتا ہے ۔وہاں رہنے والوں میں اس واردات کے خلاف جیسا غصہ سامنے آیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کے کشمیری عوام نے اس حملہ کو لیکر کتنا غصہ ہے ۔پوری کشمیر وادی میں اس حملہ پر مقامی آبادی کے درمیان از خود احتجاج ہوا اور وسیع پیمانے پر لوگوں نے اس واردات کی مزمت کی ،مظاہرہ کیا اور آپسی بھائی چارہ بنائے رکھنے کی اپیل کی ۔جیسا کے میں نے کہا کے ان دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں