ایک ارب ہندوستانیوں کے پاس خرچ کرنے کو پیسے نہیں!
ہندوستان کی آبادی قریب ایک ارب 40 کروڑ ہے لیکن حال میں آئی ایک ریپورٹ میں کہا گیا ہے کے ان میں سے ایک ارب لوگوں کے پاس خرچ کے لئے پیسے نہیں ہیں وئر کپیٹل فرم بلو برگ وینچرس کی اس تازہ ریپورٹ کے مطابق دیش میں کنزیومر طبقہ چوں کی خاص طور پر کاروباری مالکوں یا اسٹارٹ اپ کا ایک منکنہ بازار اس سائز میں میکسو کی آبادی کے برابر یا 13 سے 14 کروڑ ہے اس کے علاوہ کئی کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہیں امرجنگ کہا جا سکتا ہے لیکن وہ خرچ کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں کیوں کے انہوںنے ابھی خرچ کرنے کی شروعات کی ہے ریپورٹ کے مطابق ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے کنزیومر طبقہ کا پھیلاﺅ اتنا نہیں ہو رہا ہے جتنا خرید کی ضرورت بڑھ رہی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے بھارت کی خوشہار آبادی کی تعداد نہیں بڑھ رہی ہے بلکہ جو پہلے سے خوشہال ہیں وہ اور امیر ہو رہے ہیں ۔یہ سب ملک کر دیش کے کنزیومر ماریٹ کو الگ طرح سے شکل دے رہے ہیں خاص کر پرزینٹیشن کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے ۔جہاں برانڈ بڑے پیمانے پر چیزوں اور سیل کی پیشکش پر دھیان دینے کے بجائے امیروں کی ضرورتوں کی پورا کرنے والی مہنگی عمدہ چیزوں پر مرکوز کر ترقی کو رفتار دیتے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال بہت مہنگے گھروں اور بہترین کوالیٹی کے سمارٹ فون کی فروخت میں ازافہ ہو رہا ہے جبکہ ان کے سستے برانڈ فروخت میں جدوجہد کر رہے ہیں ۔بھارت کے کل بازار میں اس وقت سستے گھروں کی حصہ داری 18 فیصد ہے جبکہ 5 سال پہلے یہ حصہ داری40 فیصد ہوا کرتی تھی اس طرح عمدہ سامانوں کی حصہ داری بڑھ رہی ہے ۔اور معیشت پھل پھول رہی ہے مثال کے لئے کولڈ پلے اینڈ شیری جےسے آرٹسٹوں کے پروگرام مہنگے ٹکٹوں پر بکنا ۔بھارت کا درمیانہ طبقہ کنزیومر معاملے میں بہت پیچھے رہا ہے لیکن مارس لیس اوینٹ منیجروں کے ذریعہ اکھٹا ڈیٹا کی دیکھے تو تنخواہ کے ایک جیسے بنے رہنے کے سبب اس درمیانہ طبقہ کی حالت خراب ہے ۔جنوری میں شائع اس ریپورٹ میں کہا گیا ہے کے بھارت میں ٹیکس دینے والی آبادی کے 50 فیصد لوگوں کی تنخواہ پچھلی ایک دہائی میں جو کے توںرہی ہے ۔مالیتی عدم توازن کی وجہ سے بچت ختم کر دی ہے۔آر بی آئی مسلسل اس بات کو کہہ رہا ہے کے ہندوستانی خاندانوں کی مالی بچت 50 برسوں میں کم ستح پر پہنچ رہی ہے ۔ان حالات سے پتہ چلتا ہے کے درمیانہ طبقہ کے گھریلوں خرچ سے وابستہ چیزوں اور سیواﺅ میں آنے والی مشکلوں کی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ریپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے اے آئی آہستہ آہستہ روز مرہ کی استعمال کی جگہ لے سکتا ہے ۔ایسے میں سفید پوش شہریوں کے لئے نوکریا ں پانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔بھارت کی مینوفیکچرنگ میں سوپر وائزروں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے ۔سرکار کے حالیہ ایک سروے میں ان تشویشات کو ظاہر کیا ہے اس میں کہا گیا ہے اس طرح کی تکنیکوکے وکاس کی وجہ سے لیبر ڈسپلیسمنٹ میٹر جیسی سیوا متاثر ہوئی معیشتوں کے لئے تشویش کا باعث ہے جہاں آئی ٹی فورس کا ایک اچھا حصہ سستی سروس سیکٹر میں کام کر رہا ہے یہ سب دیش کی معاشی ترقی کو پٹری سے اتار سکتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں