مہایوتی بنام مہاوکاس اگھاڑی !

پچھلے پانچ برسوں میں مہاراشٹر کی سیاست میں غیر متوقع اتھل پتھل ہوئی ہے۔ریاست کی عوام نے کئی بار سیاسی جھٹکے دیکھے ہیں لیکن کیا جنتا ان جھٹکوں کو پچا پائی یہ آنے والے ہفتوں میں صاف ہو جائے گا ۔چناو¿کے اعلان کے ساتھ ریاست میں چھ بڑی سیاسی پارٹیوں کا امتحان شروع ہو چکاہے ۔مہاراشٹر میں 288 سیٹوں پر اسمبلی چناو¿ ہونے جارہے ہیں ۔2019 سے 2024 تک پانچ سال کی میعاد مہاراشٹر کی سیاست میں غیر متوقع واقعات کا دور رہا ہے ۔اس بار چناو¿میں دو نئی پارٹیاں نظر اائیں گی ۔دراصل یہ دونوں نئی پارٹیاں پچھلی بار چناو¿ لڑ چکی دو پارٹیوں سے الگ ہو کر بنی ہیں ۔پچھلے پانچ برسوں کے سیاسی واقعات کی وجہ سے ان پارٹیوں کا قیام ہوا ۔مہاراشٹر اسمبلی میں شیو سینا سندھے گروپ کے پاس چالیس ممبر اسمبلی ہیں جبکہ بی جے پی کے پاس 103 ممبران ہیں اور این سی پی اجیت پوار کے پاس 40 ممبر اسمبلی ہیں ۔دوسری جانب مہاوکاس اگھاڑی میں این سی پی (شردپوار) کے پاس 13 ایم ایل اے ہیں ،شیو سینا (ادھو ٹھاکرے کے ساتھ 15 ممبر اسمبلی ہیں اور کانگریس کے 43 ممبران ہیں ۔اس کے علاوہ ریاست میں بہوجن وکاس اگھاڑی کے تین ،سماج وادی پارٹی کے دو اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے دواور جن شکتی کے دو ،ایم این ایس کے ایک کمیونسٹ پارٹی اور باقی چار سیاسی پارٹی سماج وادی پارٹی مہاراشٹر جن شرن شکتی پارٹی کے ایک کرانتی کاری پارٹی کے ایک اور آزاد 13 ممبر اسمبلی ہیں ۔2019 کا اسمبلی چناو¿ شیو سینا اور بھاجپا اتحاد نے مل کر لڑا تھا ۔دوسری جانب کانگریس اور این سی پی اتحاد نے بھی ساتھ مل کر چناو¿ لڑا تھا ۔اسمبلی چناو¿ کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی مہاراشٹر میں دونوں اتحادوں ،حکمراں مہایوتی اور مہاوکاس اگھاڑی کی چنوتیاں بڑھ گئی ہیں ۔مہایوتی کی جیت کی ہیٹ ٹرک لگانے کی ہے تو ایم وی اے کے سامنے لوک سبھا چناو¿ کی پرفارمنس بنائے رکھتے ہوئے گزشتہ دو چناو¿ سے جاری سوکھا ختم کرنے کی ہے ۔سوال یہ ہے کہ بھاجپا کے رہنمائی والے مہایوتی مہاراشٹر میں ہریانہ جیسا معجزہ دہرائے گی ۔یا پھر ایم وی اے ہریانہ کی ہار سے سبق سیکھتے ہوئے اس بار بازی مار جائے گی؟ لوک سبھا چناو¿ کے نظریہ سے دیکھیں تو مہاراشٹر اور ہریانہ میں کئی یکسانیت نظر آئیں گی ۔ہریانہ میں پانچ سیٹیں چھیننے والی کانگریس کو بھاجپا سے محض ڈیڑھ فیصدی زیادہ ووٹ ملے تھے ۔مہاراشٹر میں مہایوتی کو 17 سیٹوں پر محدود کرنے والے ایم وی اے کو محض 0.16 فیصدی ووٹ زیادہ ملے تھے ۔دونوں ہی ریاستوں میں بھاجپا کی رہنمائی والے این ڈی اے کو او بی سی دلت ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کا نقصان اٹھانا پڑا۔حالانکہ ہریانہ اسمبلی چناو¿ میں جیت کی ہیٹ ٹرک لگا کر بھاجپا نے کانگریس سے حساب کتاب برابر کر لیا ۔مہاراشٹر میں لوک سبھا چناو¿ میں لگے جھٹکے سے نکلنے کے لئے مہایوتی کی نگاہیں کھسک چکے چالیس فیصدی او بی سی اور دس فیصدی دلت ووٹ بینک پر ہے ۔جس کی ناراضگی کی قیمت عام چناو¿ میں اٹھانی پڑی تھی ۔دوسری جانب مہا وکاس اگھاڑی ای میں شردپوار جیسے چانکیہ مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں ۔راہل گاندھی نے بھی ہریانہ کی ہار سے سبق سیکھا ہے ۔پارٹی ٹوٹنے کے باوجود چناو¿ نشان چھننے کے بعد جب ادھو ٹھاکرے اپنی جڑیں جمائے ہوئے ہیں اور ان کی مقبولیت بھی سامنے ہے ۔اس چناو¿ میں شکتی پارٹی کا بھی فیصلہ ہوگا ۔لوک سبھا چناو¿ میں این سی پی (اجیت پوار ) کو صرف ایک شیٹ ملی تھی ۔وہیں شردپوار گروپ کو آٹھ سیٹیں ملی تھیں تو شیو سینا 4 اور شیو سینا سندھے نے 7 سیٹیں جیتی تھیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!