ہریانہ چناﺅ کس پر دباﺅ کم ہوا کس پر بڑھا!
ریزرویشن اور آئین پر خطرے کو لیکر اپوزیشن کی بنائے شوشے کے سبب لوک سبھا چناﺅ میں پہنچے نقصان کے بعد ہریانہ کے نتیجے نریندر مودی اور بھاجپا کے لئے سنجیونی سے کم نہیں ہیں۔ہریانہ میں جیت کی ہیٹرک اور جموں کشمیر میں پہلے مقابلے بہتر مظاہرے سے نہ صرف مودی پر دباﺅ کم ہوگا بلکہ پارٹی کا بھروسہ بھی بڑھےگا ۔مودی جی پر پچھلے کچھ عرصے سے دباﺅ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔پارٹی کے اندر بڑھتے اختلافات اور اپوزیشن کے تلخ حملے اور آر ایس ایس کی طرف سے بڑھتی تنقید ۔مودی ان سب کئی محاذ پر ایک ساتھ لڑ رہے تھے ۔ہریانہ کے چناﺅ نتائج اور اگر بھاجپا کے خلاف آتے تو سنگھ کا مودی شاہ جوڑی پر اور دباﺅ پڑتا ۔اور پردیش صدر کی تقرری کو لیکر مودی سرکار کی پالیسیوں کو لیکر جو حملے ہو رہے تھے ان میں تیزی آ جاتی ۔مودی برانڈ پر بھی سوالیہ نشان لگنے شروع ہو گئے تھے پارٹی کے اندر یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کے اب مودی برانڈ چناﺅ میں ہی چلا ہریانہ کے نتیجوں سے نہ صرف قیاس آرایﺅں اور نقطہ چینیوں پر روک لگی پلے اگلے کچھ مہینوں میں مہاراشٹر اور جھارکھنڈ چناﺅ کے علاوہ یوپی میں اہم مانے جانے والے 10 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی چناﺅ پر بھی اثر پڑیگا ۔وہیں دوسری طرف راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کی ہار کی وجہ سے ان پر دباﺅ پڑیگا ۔راہل گاندھی جیت کے دعوے کر رہے تھے ۔ووٹنگ سے 5 دن پہلے انہوںنے ایکس پر لکھا کے ہریانہ میں درد کی دہائی کا خاتمہ کرنے کے لئے کانگریس پارٹی پوری طرح سے متحد ہے۔اور یہ دعوے کتنے کھوکھلے نکلے نتیجوں نے بتا دیا کئی تجزیہ نگار نے اس ہار کو راہل گاندھی کی اپنی ہار بتایا ہے لیکن ہمارا ایسی رائے نہیں ہے ۔راہل گاندھی نے ایماندری سے پوری طاقت لگائی لیکن نہ تو مقامی لیڈروں نے ساتھ دیا اور نہ ہی تنظیم نے ۔اب راہل ریلی میں آئی بھیڑ کو پولنگ بوتھ تک تو نہیں لے جا سکتے تھے لیکن بھلا ہو راہل اور کانگریس انڈیا اتحاد میں سودے بازی کی پوزیشن میں ضرور آ گئی ہے ۔ہونا بھی یہیں چاہئے تھا ۔کیوں کہ کانگریس کو بہت ذیادہ غرور ہو گیا تھا ۔اسے اب پارٹی اور سپا کو ساتھ ہریانہ میں رکھنا چاہئے تھا اہروال گڑ میں اکھلیش کی ایک دو ریلیاں کرنی چاہئے تھی اس ہار سے راہل پرینکا اور سونیا گاندھی کو یہ بات سمجھ میں آ گئی ہوگی کے پارٹی کے اندر بیٹھے جئے چندوں سے کیسے نپٹا جائے لوک سبھا چناﺅ میں ملی جیت کے بعد جس طرح اپوزیشن اتحاد انڈیا بلاک میں کانگریس کا رتبہ بڑھا تھا ہریانہ کی ہار سے اس پر پانی پھرتا نظر آ رہا ہے۔اس کی اتحادی پارٹی ہی اسے آنکھےں دکھانے لگی ہےں۔ادھر یوپی میں سپا نے ضمنی چناﺅ کے لئے اپنے 6 امیدواروں کے نام کا اعلان کر دیا ہے اس میں 2 سیٹیں وہ بھی ہیں جن پر کانگریس دعوی کر رہی تھی ۔اتحادی الزام لگا رہے ہیں جہاں کانگریس مضبوط پوزیشن میں ہوتی ہے وہاں اس کے ساتھیوں کو اڈجسٹ نہیں کرتی ہے ۔جموں کشمیر اور ہریانہ کے نتیجوں کا راہل کی قیادت پر کیا اثر پڑیگا یہ کہنا چلد بازی ہوگی ۔ابھی 2 ریاستوں کے چناﺅ باقی ہیں جن میں مہاراشٹر اور اور جھارکھنڈ شامل ہیں ان دوں ریاستوں میں راہل گاندھی کے سامنے چنوتی بڑھ گئی ہے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کے کانگریس کا پلڑا ہلکا ہوا ہے ٹکٹ پٹووارے وغیرہ میں اتحادی پارٹیاں اب کانگریس کے علاوہ دباﺅ ڈال سکتی ہیں ۔کل ملاکر میں نے جیسے کہا نریندر مودی کی ساکھ بڑھی ہے ان پر دباﺅ کم ہوا ہے اور راہل گاندھی کی محنت کو دھکہ لگا ہے اور ان پر دباﺅ بڑھا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں