بہن جی نے اکیلا چلو کی ٹھانی !

بسپا چیف مایاوتی جو کہتی ہیں وہ کرتی ہیں ،کرکے دکھاتی ہیں ۔کئی انتخابات میں بہتر نتیجہ نہ آنے کے بعد بھی ان کے تیور میں کوئی کمی نہیں ہے ۔جہاں دیش بھر میں چھوٹی سے لیکر بڑی پارٹیاں این ڈی اے یا انڈیا اتحاد میں جانے کو بے چین ہیں وہیں بسپا سپریمو نے یوپی میں عام چناو¿ اپنے دم خم پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔حالانکہ اس فیصلے نے سب کو ضرور چونکا دیا ہے ۔ان کو آج بھی اپنے کیڈر پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے ۔یہی کیڈر ان کا گمان اور شان بھی ہے ۔بسپا کا نعرہ ہے سروجن ہتائے و سروجن سکھائے ۔وہ دبے کچلے محروموں کے لئے سیاست کرتی ہیں ۔وہ اپنی تقریر کی شروعات بھی ان کو لیکر ہی کرتی ہیں ۔دیش بھر کی پارٹیوں پر الزام لگاتی ہیں کہ چناو¿ کے وقت دلت اور استحصال شدہ اور محروم لوگ یاد آتے ہیں ۔مایاوتی چناو¿ نزدیک آتے ہی بھاجپا ،کانگریس ،سپا و دیگر اپوزیشن پارٹیوں پر بھی ڈاکٹر بھیم راو¿ امبیڈکر ،کاشی رام ،سنت رویداس کی یاد آنے کا ڈھونگ کرنے کا بھی الزام لگاتی ہیں ۔مایاوتی نے انڈیا اتحاد سے دور رہ کر اپنے کیڈر کے بھروسہ چناو¿ میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے ۔بھتیجے آکاش کے ذریعے کمپین کی حکمت عملی اپنائی ہے اور شوشل میڈیا پر کمپین کو ترجیح دی جارہی ہے ۔ٹکٹوں کی تقسیم میں مایاوتی نے مسلمانوں کے ساتھ برہمن ،چھتری اور او بی سی کو ٹکٹ دے کر سال 2007 کی طرح شوشل انجینئرنگ کا داو¿ چلا ہے جس کے ذریعے وہ کانگریس سپا اور بھاجپا دونوں کو چنوتی دینے کی کوشش کررہی ہیں ۔مایاوتی شوشل میڈیا کے ذریعے سے اپنی بات کیڈر کے لوگوں تک پہنچا رہی ہیں ۔بسپا نے سب سے پہلا اتحاد 1993 میں یوپی میں سپا کے ساتھ اسمبلی چناو¿ میں کیا ۔دونوں پارٹیاں مل کر چناو¿ لڑیں اور اقتدار میں آئیں لیکن وہ اتحاد ٹوٹ گیا ۔بھاجپا کے ساتھ اتحاد کر 1995 میں پہلی بار وزیراعلیٰ بنیں لیکن وہ یہ ساتھ بھی زیادہ دن تک نہیں چلا ۔انہوں نے 2019 میں لوک سبھا چناو¿ میں سپا سے اتحاد تو کیا لیکن بھتیجے نے نہ آنے پر سپاکو بغیر کیڈر پارٹی بتا کر فوراً اتحاد توڑنے کا اعلان کر دیا ۔دلتوں کی پارٹی بسپا کو چالیس سال ہونے جا رہے ہیں ۔اتوار کو بسپا نے چالیسواں یوم تاسیف منایا ۔پچھلے 24 سال سے بسپا کی قومی صدر گوتم بدھ نگر ضلع کے گاو¿ں بادل پور میں پیدا مایاوتی ہیں ۔پارٹی کے نئے جانشین آکاش آزاد کی پیدائش بھی نوئیڈا میں ہی ہوئی ہے اور وہ وہیں پر پڑھے لکھے ہیں ۔مایاوتی 2001 سے پارٹی کی قومی صدر ہیں ۔پچھلے چالیس برسوں میں بسپا نے کئی اتار چڑھا و¿ دیکھے ان دنوں بسپا اپنے برے دور سے گزر رہی ہے جس کے پاس پورے اتر پردیش میں صرف ایک ممبر اسمبلی ہے ۔پارٹی چیف کے آبائی شہر گوتم بدھ نگرمیں ہی بسپا کا کوئی پبلک نمائندہ نہیں ہے جبکہ دس سال پہلے تک یہاں پر بسپا کی بالا دستی ہوا کرتی تھی ۔14 اپریل 1984 کو کاشی رام کے ذریعے بسپا کی تشکیل کی گئی تھی ۔انہوں نے بسپا کو قائم کرنے کے لئے سخت محنت کی ۔بسپا کا قیام ہونے کے بعد پہلے انہیں چناو¿ نشان کی شکل میں چڑیا ملی تھی لیکن اس چناو¿ نشان پر کوئی جیت حاصل نہ کر دسکیں اگر ہم اعداد شمار پر نظر ڈالیں تو پچھلے کچھ برسوں میں سپا ،بسپا کا مینڈیٹ مسلسل گھٹ رہا ہے ۔دیکھنا اب یہ ہے کہ بہن جی کی اکیلا چلو کی حکمت عملی 2024 کے چناو¿ میں کیا رنگ لاتی ہے ؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟