زبردست شکست سے کوئی سبق لے گی کانگریس!

حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں تین ریاستوں میں ملی زبرست شکست سے کانگریس کچھ سبق لے گی ؟ اس شکست کے بعد کانگریس نے ذمہ داری طے کرتے ہوئے تبدیلی شروع کر دی ہے ،ایسے اشارے آنے لگے ہیں اس کا آغاز مدھیہ پردیش سے ہوا ہے ۔پارتی کے سینئر لیڈر ہار کے اہم ذمہ دار کملناتھ اور دگوجے سنگھ کے دائرے سے باہر نکلتے ہوئے تیز ترار لیڈر جیتو پٹواری کو پردیش کانگریس تنظیم کی زمہ داری سونپی گئی ہے ۔جیتو پٹواری کی گنتی پردیش کانگریس کے ان لیڈروں میں ہوتی ہے جو کمل ناتھ ،دگوجے سنگھ کسی کے خیمے میں نہیں ہے ۔وہ پارٹی کی لیڈرشپ کے بھروسہ مند ہیں اور نوجوانوں کو پارٹی کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں اس کے ساتھ وہ سبھی لیڈروں کو ساتھ لیکر چلنے میں یقین رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے پردیش کانگریس میں نسلی تبدیلی کرتے ہوئے صدر کے عہدے کے لئے جیتو پٹواری پر بھروسہ جتایا ہے ۔مدھیہ پردیش میں بھاجپا کو موہن یادو کو وزیراعلیٰ بنانے کے بعد کانگریس پر تبدیلی کا دباو¿ بڑھ گیا تھا ۔کانگریس نے تبدیلی کے ساتھ ذات برادری کے تجزیوں کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کی ہے ۔جیتو پٹواری او بی سی برادری سے ہیں ۔وہی نیتا اپوزیشن کا عہدہ سنبھالنے والے ڈیمنگ سنگر بڑے وفادار لیڈر ہیں ۔اور ڈپٹی لیڈر ہیمنت کراکے براہمن چہرہ ہیں ۔پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے بتایا کہ کانگریس لیڈر شپ کے جس انداز میں مدھیہ پردیش میں تبدیلی کی ہے ،اس سے صاف ہے کہ پارٹی اب گروپ بندی سے باہر نکل کر نئے لوگوں کو موقع دینا چاہتی ہے ۔امید ہے کہ پارٹی راجستھان میں بھی سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور سینئر لیڈر سچن پائلٹ کو بھی صاف اشارہ دیتے ہوئے فیصلہ لے گی۔پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بھلے ہی بھاجپا بھاری اکثریت سے تین ریاستوں میں جیت درج کرنے میں کامیاب رہی ہو لیکن انتخابات میںکل ووٹ کانگریس کو زیادہ ملے ہیں ۔ہندوستانی الیکشن کمیشن کے اعداد شمار کے مطابق کانگریس کو بھاجپا سے قریب دس لاکھ ووٹ زیادہ ملے ہیں ۔اس کے پیچھے اہم وجہ تلنگانہ میں کانگریس کو ملی شاندار جیت ہونا بھی بتایا جاتا ہے الیکن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجودہ اعداد شمار کے مطابق بھاجپا کو پانچ ریاستوں میں کل چھتیس گڑھ ،مدھیہ پردیش،راجستھان ،تلنگانہ ،میزورم میں چار کروڑ اکیساسی لاکھ اڑسٹھ ہزار چھ سو ستاسی ووٹ ملے جبکہ کانگریس کو ان ریاستوں میں کل چار کروڑ بانوے لاکھ چوبیس ہزار ووٹ ملے ۔اس حساب سے کانگریس کو دس لاکھ پچپن ہزار تین سو تیرہ زیادہ ووٹ ملے ۔دراصل چھتیس گڑھ ،مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھاجپا کو زبرست جیت حاصل ہوئی ۔لیکن ووٹوں کا فرق زیادہ نہیں رہا لیکن تلنگانہ میں کانگریس کو زبردست جیت ملی ۔یہاں پر بھاجپا تیسرے نمبر پر رہی ۔یہی وجہ ہے کہ پانچوں ریاستوں میں ملے ووٹوں کو دیکھتے ہوئے کانگریس بھاجپا سے آگے نکل گئی ۔میزورم میں چالیس اسمبلی سیٹوں میں ایک لاکھ چھیالیس ہزار ایک سو تیرہ یعنی 20.82 فیصدی ووٹ پاکر کانگریس کو ایک سیٹ پر جیت ملی ہے ۔جبکہ بھاجپا 35 ہزار 524 یعنی 05.06 فیصدی ووٹ پاکر نمبر دو پر رہی ہے اور جیتنے میں کامیاب رہی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟