کیا بھاجپا میں پیڑھی تندیلی کا دور ہے ؟

بھوپال میں بھارتی جنتا پارٹی کے دفتر میں منگل کے روز پھر ایک بار ورکر چونک گئے 11 دسمبر کو بھی وہ اس وقت بھی حیرانی میں پڑھ گئے جب مدھیہ پردیش میں پارٹی نے اپنے وزیراعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کا اعلان کیا تھا ۔اس ایک دن پہلے بھی چھتیس گڑھ میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کو لیکر پارٹی اعلیٰ کمان میں سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔منگل کو راجستھان کی باری آئی کیوں کہ وہاں پر وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان ہونے والا تھا دفتر کے مہمان خانہ میں لگے ٹی وی پر راجستھان کی خبر آ رہی تھی تبھی وسندھرا راجے سندھیا نے بھجن لال شرما کے نام کا اعلان کر دیا بھوپال میں موجود لیڈر اور ورکروں نے کبھی ان کا نام تک نہیں سنا تھا ۔نیتا لوگ آپس میں سوال کر رہے تھے یہ کون ہے بھجن لال شرما ؟پہلے چھتیس گڑھ میں وشنو دیو کے ساتھ پھر مدھیہ پردیش میں موہن یادو اب راجستھان میں بھجن لال شرما کو وزیراعلیٰ بنا دیا ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے چونکانے والی سیاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب مہارت حاصل کر لی ہے ۔غیر مقبول چہروں کو بڑے عہدوں پر ذمہ داری سونپنے کا سلسلہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہی شروع کیا ہے وہ سیاسی مبصرین کی سمجھ سے باہر ہے کیوں کہ پارٹی کے اس قدم کی الگ الگ انداز سے تشریح کی جا رہی ہے سرکردہ لیڈروں کو درکنار کر پارٹی نے ان نیتاﺅ کے ہاتھوں میں ریاستوں کی کمان سونپی ہے جن کے نام کسی لسٹ میں دور دور تک نہیں تھے جو وزیراعلیٰ کی دوڑ میں بھی نہیں رہے راجستھان کو لیکر تو کمال ہی ہو گیا کیوں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے پہلی بار ممبر اسمبلی بننے والے کسی لیڈر کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائےگا ۔راجستھان میں پہلی بار ممبر اسمبلی چنے گئے بھجن لال شرما کو وزیراعلیٰ بنا کر بھاجپا نے سارے اندازوں کو ختم کر دیا کہیں سے بھی اشارے نہیں مل رہے تھے کے وہ گدی کو لیکر چناﺅں میں اترے ہیں ۔چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں جنہیں وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے ان کے پاس بہرحال چناﺅں لڑنے کا پہلے سے لڑنے کا تجربہ رہا ہو مگر بھجن لال کے معاملے میں ساری قیاس آرائیاں ختم ہوں گئی جس طرح سے عام طور پر سیاسی پارٹیاں کام کرتی ہیں یا جیسی روایت رہی ہے اب بھاجپا خاص طور پر وزیراعظم نریندر مودی روایت بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں ۔پارٹی نئے نئے تجربہ کر دہی ہے اور اس کے کئی فیصلے غیر متوقع بھی ہیں ۔جس کا خطرہ کانگریس نے کبھی نہیں مول لیا ۔وہ خطرہ مودہ ،شاہ لے رہے ہیں کانگریس ہمیشہ سے ہی پرانے لیڈروں پر داﺅ لگاتی رہی پارٹی میں نئے لیڈروں کو اپنی جگہ بنانے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے ۔مثال کے طور پر کمل ناتھ، اشوک گہلوت ،دگ وجے سنگھ مثال ہیں نئے لیڈر شپ اور نئی پیڑی کو ہمیشہ پیچھے رکھا گیا ہے اس لئے بھی جوترادتیہ سندھیہ کو کانگریس کو الوداع کہنا پڑا پچھلے 10 برسو میں بھاجپا نے پیڑی تبدیلی پر کافی زور دیا ہے اور اسی لئے راجستھان ،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں جس طرح وزیراعلیٰ اور نئے وزیراعلیٰ کے ناموں کا اعلان کیا گیا اسے اسی کڑی سے جوڑکر دیکھا جانا چاہئے ۔ایسے چہرے جن کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہوتا یا جن کے نام ریس میں نہیں ہوتے اگر انہیں اہم ترین ذمہ داری دی جاتی ہے تو ہمیشہ کام کے لئے وہ ہمیشہ عہد مند رہتے ہیں اور انہیں رموٹ سے چلایا جا سکتا ہے اب دیکھنا ہے کے مستقبل کے سینئر لیڈروں کا اس حساب سے کیا مستقبل ہوگا ؟(انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟