ہم جنس شادیوںسے کنبہ جاتی تہذیب تباہ ہوجائے گی!

سپریم کورٹ میںہم جنس شادی کو قانونی منظوری دینے سے متعلق عرضیوں پر سماعت کے دوران 21سابق ججوں 6سابق سفراءسمیت 101سابق افسروں نے صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو کو خط لکھا ہے ۔ اس میں ہم جنس شادی کے اشو پر کہا گیا ہے کہ اس کو قانونی حیثیت فراہم کرنے کی کوششوں سے انہیں دھکا لگاہے ۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر اس کی اجازت دی گئی تو پورے دیش کو اس قیمت چکانی پڑے گی۔ ہمیں لوگوں کی بھلے فکر ہے ہمارا سماج ہم جنسی عمل کلچر کو تسلیم نہیں کرتا ۔ شادی کی رعایت دینے پر یہ عام ہو جائے گا۔ اس سے پریوار اور سماج نام کی روایتیں تباہ ہو جائیںگی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ہمارے بچوں کی صحت اور نشو ونما دونوں ہی خطرے میں پڑ جائیںگے۔ اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ کا ہے جہاں لوگوں کے نمائندے ہوتے ہیں ۔ اس سے پہلے بدھوار مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے عدالت نہ تو قانونی تقاضوں نئے سرے سے قلمبند کر سکتی ہے نہ ہی کسی قانون کے بنیادی ڈھانچے کو بدل سکتی ہے جیسا کہ اس کی تیاری کے وقت تصور کیا گیا تھا۔ مرکز نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ ہم جنس شادیوں کو قانونی منظوری دینے سے متعلق عرضیوں میں اٹھائے گئے سوالوں کو پارلیمنٹ کیلئے چھوڑ دے ۔ خط میں مزید لکھا گیا کہ ہم بھارت کے فرائض کے پابند بزرگ شہری مسلس ہو رہے واقعات سے حیران زدہ ہیں ۔ہماری پرانی بنیادی تہذیبی روایات پر حملے ہو رہے ہیں۔ خط لکھنے والوں میں مہاراشٹر کے سابق ڈی جی پی پروین دکشت ،جسٹس کملیشور ناتھ ،آر راٹھور ،ایس این ڈھنرا ،بی جی بسٹ ،راجیو ملپا ،آئی اے ایس ایل سی گوئل،شوشانک سدھیر کمار ،گوپال کرشن مدھیہ پردیش و کرناٹک ،دہلی و ممبئی ہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان سمیت دیش کے سینئر لوگوں نے صدر جمہوریہ کو خط لکھا ہے ۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ میں ہم جنس شادی کو قانونی منظور دینے کی مانگ کرنے والی عرضیوں پر ہو رہی سماعت کے بیچ مرکزی وزیر قانون کرن ریجیجو نے کہا کہ شادی معاملہ کو قانونی منظوری دی گئی تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ریجیجو نے کہا کہ شادی جیسی اہم ترین معاملہ ہے جسے دیش کے لوگوں کے ذریعے طے کیا جانا چاہیے ۔ یہ معاملہ صرف دیش کے اکثریتی لوگوں کے مذہب سے نہیں جڑا ہوا ہے بلکہ اسلامی مذہب سے بھی جڑا ہے ۔جمعیت علمائے ہند کے ذریعے بھی اس طرح کے خیالات ظاہر کئے گئے ہیں اس میں کہا گیا ہے ہم جنس شادی جیسے واقعات مغربی مذہبی تہذیب سے پیدا ہوئے ہیں ۔ جس کے پاس کٹر پسند ی اخلاقی ،عالمی ذہن ہے اور بھارت میں اس روایت پر قطعاً عمل نہیں کیا جانا چاہئے۔ بار کونسل آف انڈیا کی صدر کا یہ کہنا ہے کہ معاملہ مرکزی سرکار پر چھوڑ دیا جانا چاہئے ۔معاملے میں سب سے ضروری یہ ہے کہ اس پر کوئی بھی قدم سنبھل کر بڑھایا جائے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟