گلے کی پھانس بنے راجوری و پونچھ اضلاع !

پچھلے تین مہینوں سے یعنی پچھلے ڈھائی برس سے ایل او سی سے لگے راجوری و پونچھ کے جڑوا ضلعے جنگ کا میدان بن چکے ہیں۔اس جنگ میں 26فوجیوں اور نو شہریوں کی جان جا چکی ہے فوج کیلئے گلے کی پھانس بنے دونوں اضلاع میں تشویش اس بات کی ہے کہ ان کی تمام کوششوں کے باوجود مقامی شہری دہشت گردی کی طرف راغب ہونے لگے ہیں ان دونوں ضلعوںمیںپھیلی اس جنگ کے تئیں کہا جا رہا ہے کہ مقابلہ جانی دشمن سے ہے ۔یہ دشمن مقامی او جی ڈبلیو تو ہے ہی ، ایل او سی کے پاس ہونے سے اس پار سے آنے والے غیر ملکی شہری بھی ہیں جن پر نکیل نہیں کسی جا سکی ۔جبکہ آتنکی حملوں اور قتل عام کے واقعات میں شامل سبھی دہشت گرد فی الحال گرفت سے باہر ہیں۔ ان دونوں ضلعوںمیں دہشت گردوں کے ذریعے فوج کو مسلسل نشانہ بنائے جانے سے فوج کی پریشانی اور فوجیوں کے حوصلے کو بنائے رکھنے کی ہو گئی ہے ۔ اکتوبر 2021کے دو حملوں کی جس میں 9فوجی مارے گئے تھے ۔ اس بار 17دنوں میں اندر پھر سے 10فوجیوں کو مارنے والے دہشت گرد سنائی پر رائفلوں اور انتہائی جدید ہتھیاروں سے مسلح ہونے کے ساتھ ہی علاقے سے اچھی طرح واقف ہونے والے بتائے جا رہے ہیں۔ ایک افسر کے بقول مقامی حمایت کے سبب ہی وہ پونچھ کے بھاٹا دھریاں علاقے سے راجوری کے پوری سیکٹر تک 50سے 60کلو میٹر کے سفر کو پورا کررہے ہیں۔ پچھلے 17دنوںمیں دہشت گردوں کے ہاتھوں 10جوانوں کی موت راجوری اور پونچھ کے ایل او سی سے لگے ان جڑوا اضلاع میں کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ بلکہ پانچ اگست2019کو آرٹیکل 370ہٹائے جانے کے بعد دہشت گردوں نے کشمیر میں ان جڑوا اضلاع کی طرف رخ کرتے ہوئے پہلے شرن کورٹ کے علاقے میں 11اکتوبر 2020کو پانچ فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس حملے کے بعد اسی دہشت گرد گروپ نے پونچھ کے بھٹا دھرئی علاقے می فوجیوںپر ایک اور تاک لگاکر حملہ کیا ۔ جس میں چار فوجی شہید ہو گئے تھے ۔ جموںکشمیر کے راجوری ضلع کے گھنے جنگی علاقے میں جاری آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسیز نے سنیچر کو ایک آتنکی کو مار گرایا اور دوسرا زخمی ہو گیا تھا۔ فوج نے یہ جانکاری دی ہے راجوری میں جاری کاروائی کے دوران جمعہ کو آتنکی وادیوںنے فوج کے پانچ جوانوںکو شہید کئے اور میجر رینک کے افسر زخمی ہو گیا ۔ اس واردات کے بعد اب فوج نے تلاشی کاروائی شروع کردی ہے اور اس دوران 250سے زیادہ لوگوں واردات کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کیلئے حراست میںلیا گیا ہے ۔ دراصل آپریشن ترینیش جیسی کاروائیوں کیلئے ضروری ہے کہ مخبروں کی مدد لی جائے،انٹیلی جنس اور مقامی لوگوں کا زیادہ سے زیادہ تعاون لیا جائے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟