کیا کھیتی قوانین کو ریاستیں نظر انداز کر سکتی ہیں ؟

حال ہی میں قانون میں تبدیل ہوئے تین زراعت سے متعلق بلوں پر اب پارلیمنٹ کے بعد اب سڑکوں پر گھمسان جاری ہے۔پنجاب ،ہریانہ سمیت دیش کی کچھ ریاستوں میں ان کے خلاف تحریکیںچل رہی ہیں اکالی دل بادل نے این ڈی اے سے دہائیوں پرانا رشتہ توڑ لیاہے ۔پنجاب اور مہاراشٹر سرکار نے انہیں کالا قانون قرار دیتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ وہ اسے اپنی ریاست میں لاگو نہیں کریں گے ۔سوال یہ ہے کہ کیا مرکز کو اس طرح کا قانون بنانے یا ریاستوں کو ان قوانین کو نظر انداز کرنے کا حق ہے ؟مرکزی سرکار کا کہنا ہے مگر یہ ریاست کا اشو ہے تو زرعی چیزوں کی بین الریاستی تجارت اور کمرشیل فیڈریشن فہرست میں آتاہے اس لحاظ سے اس مسئلے پر مرکز کو قانون بنانے کا حق ہے۔جب ریاستیں فہرست میں ریاست کے اندر کا کاروبار آتاہے لیکن دوسری فہرست میں بھارت سرکار کے ذریعہ کے کنٹرول صنعتوں کی چیزوں کی تجارت شامل ہے اس مسئلے پر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ابک ساہا کہتے ہیں کہ موجودہ آئینی تقاضوں کے مطابق فیڈریشن فہرست اور سیماورتی فہرست پارلیمنٹ کو زراعت کے بارے میں قانون بنانے کا حق نہیں دیتی آئین کی فیڈریشن فہرست میں مرکز اور ریاستوں کے درمیان غذائی اجناس کے ریاست گیر کاروبار کے معاملے میں قانون بنانے کا حق ہے لیکن زرعی مارکیٹ کے لئے قانون بنانے کا حق نہیں ہے زراعت اور زمین ریاست کا معاملہ ہے اس لئے مرکز کا کنٹریکٹ پر کھیتی کے معاملے میں قانون بنانے کا حق نہیں ہے ۔ زرعی کاروبار کے معاملے میں اشوک دلوئی اور رمیش چندر کمیشن نے زرعی کاروبار آئین کی سیماورتی فہرست مین ڈالنے کی تجویز رکھی تھی ان کے مطابق 5مئی 2015کو سرکار نے لوک سبھا میں کہا تھا سوامی ناتھن کمیشن نے زرعی مارکیٹ کو سیماورتی فہرست میں ڈالنے کی سفارش کی تھی تکہ ریاستیں اور مرکز اس مسئلے پر اپنی ضرور ت کے حساب سے قانون بنا سکیں پنجاب کے سینئر کسان لیڈر کا کہناہے کہ نئی زرعی قوانین سے ناراض ریاستیں سپریم کورٹ جا سکتی ہیں جہاں اس کے آئینی جواز کو چیلنج کیا جا سکتاہے سپریم کورٹ ہی معاملے میں ریاستوں اور مرکز کے اختیارات کی تصریح کر سکتی ہے ۔کیرل کے ایک ایم پی نے اس معاملے میں سپریم کورٹ میں کیس بھی دائر کردیا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!