نئے پولیس کمشنر کی امن اور آپسی اعتماد بحالی پہلی ترجیح!
دہلی میں تشدد کے حالات کے درمیان دہلی پولیس کے نئے کمشنر شری ایس این سریواستو کا خیر مقدم ہے ۔سنیچر کو عہد سنبھالتے ہوئے کمشنر صاحب نے کہا کہ ان کی پہلی ترجیح قومی راجدھانی میں امن بحال کرنا اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ یقینی بنانا ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ شہر کی روایت رہی ہے کہ یہاں ہر طبقے اور مذہب کے لوگ ایک ساتھ بھائی چارے سے رہتے ہیں اور اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔نارتھ ایسٹ دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات کو لے کر درج معاملوں کی جانچ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے شروع کر دی ہے ۔ایس امید کی جانی چاہیے کہ ان دنگوں کے لئے جو بھی ذمہ دار ہے ان کی پہچان کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔پولیس نے اب تک دنگوں سے وابسطہ 200سے زیادہ مقدمے درج کئے ہیں جن کی جانچ کے لئے کرائم برانچ نے ڈپٹی کمشنر سطح کے حکام کی قیادت میں دو اسپیشل تفتیشی ٹیم یعنی ایس آئی ٹی بنائی ہے اس ٹیم نے جمع کو مختلف دنگہ زدہ علاقوں میں جا کر ثبوت اکٹھا کئے اور جانچ پڑتال کی اور فساد کا مرکز بن چکے قتل کے ملزم کونسلر طاہر حسین کے گھر پر بھی کرائم برانچ کی ٹیم نے فورنسک ماہرین کے ساتھ ثبوت اکھٹے کئے ساتھ ہی اس کے گھر اس کی گرفتاری کے لئے چھاپہ ماری جاری ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ اسے جلد گرفتار کر لیا جائے گا یہ صحیح ہے کہ فساد میں جو بھی نقصان ہوا ہے اس کی کمی تو پوری نہیں کی جاسکے گی ۔لیکن جن لوگوں نے تشدد کے واقعات کو انجام دیا ہے ان کے خلاف سخت کارروائی کیاجانا انتہائی ضروری ہے ۔دہلی پولیس کی ان فسادات میں ساکھ خراب ہوئی ہے ۔امید کی جاتی ہے کہ نئے کمشنر سریواستو آزادانہ اور منصفانہ جانچ اور کارروائی کریں گے جس سے دہلی پولیس کی بگڑی ساکھ میں بہتری آسکے اور کسی بھی صورت میں فسادیوں کو بخشا نہیں جا نا چاہیے ۔چاہے وہ بڑے سے بڑا نیتا کیوں نہ ہو دہلی پولیس کو جہاں ایک طرف فسادیوں کی پہچان کرنے کی کوشش کرنی چاہیے وہیں دنگا بھڑکانے والوں کی بھی شناخت ہونی چاہیے اور انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے پولیس کو افواہ پھیلانے والوں کی دھر پکڑ کے لئے بھی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے ۔تاکہ انہیں بھی ان کے کئے کی سزا مل سکے ۔اس کے ساتھ ہی اترپردیش کی طرز پر فسادیوں سے نقصان کی بھرپائی کی جانی چاہیے اور ان کی پراپرٹی قرق کی جائے ۔اب دہلی میں تشدد کے واقعات میں کمی آگئی ہے اور حالات پر سکون ہیں لیکن خوف کا ماحول بدستو برقرار ہے ۔ابھی وقت کے ساتھ سارے دکھ درد بھلائے جا سکتے ہیں لیکن دہلی کے فسا د ات نے جو زخم دیے ہیں انہیں شاید ہی بھلا یا جا سکے گا جس طرح سے 1984میں ہوئے سکھ دنگوں اور 2002میں گجرات کے دنگوں کے زخم آج تک ہرے ہیں اور متاثرہ کی آنکھوں میں آج بھی آنسو ہیں اسی طرح ایک ہفتے پہلے شروع ہوئے نارتھ ایسٹ دہلی کی بستیوں میں دنگوںنے بھی لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لے ایک خلش پیدا کر دی ہے ۔اس سے بھی زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ تین دن تک چلے تشدد کے اس قہر کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیاگیا ہے جبکہ تشدد پھیلانے والوں کے بارے میں اب تک یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ شرارتی عناصر کا کام تھا ۔اور کسی کے اشار ے پر انہیں انجام دیا گیا اس بات کے بھی اشارے ملے ہیں کہ یہ کا م کچھ پیشہ ور جرائم گروپ کا تھا ایسے میں سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اگر کوئی پیشہ ور جرائم گروپ اتنے وسیع پیمانے پر تشدد برپا کرتا ہے تو اس کے پیچھے یقینی طور سے کسی کا ہاتھ ضرور ہوگا اور ساز ش ہوگی دہلی کے دنگا متاثرین خاص طور سے جن لوگوں نے اپنوں کو ہمیشہ کے لے کھو دیا ہے وہ صرف ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر ہم نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جس کی وجہ سے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں ۔دنگوں کا درد بھلایا نہیں جا سکتا کوئی نہیں جانتا کہ پانچ یا چھ دن سے لوگ اپنوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے ہیں اسپتالوں سے لے کر تھانوں تک میں چکر لگا رہے ہیں آس پاس کے نالوں میں تلاش کروا رہے ہیں رہ رہ کر لاشوں کا ملنے کا سلسلہ جاری ہے حالت تو یہ ہے کہ نہ تو اسپتالوں میں زخمیوں کا صحیح علا ج ہو پارہا ہے اور نہ ان کے اپنوں کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے سوال آج بھی یہی ہے کہ فسادی کون تھے کس کے اشارے پر دنگوں کی شروعات ہوئی ؟اور جب دنگے شروع ہوئے تو پولیس تماشائی بن کر کیوں کھڑی رہی ؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں