اجیت پوار ہیرو یا ویلن؟

اقتدار کا لالچ ایسا ہوتا ہے کہ سیاست میں صرف مستقل مفاد ہوتا ہے ،دشمن یا دوست نہیں ۔مہاراشٹر کا ہوا ڈرامہ یا ثابت کرتا ہے کہ اقتدار کی خاطر صبح کے اخبارات کی یہ سرخیوں کی سیاحی ابھی تک سوکھی نہیں تھی کہ ادھو ٹھاکرے شیو سینا اور راسٹر وادی کانگریس پارٹی اتحاد کے وزیر اعلیٰ بنیں گے ،صبح آٹھ بجے پتہ چلا کہ صبح سویرے ہی صدر راج ہٹا لیا گیا ،دیوندر فڑنویس وزیر اعلیٰ اور اجیت پوار نائب وزیر اعلیٰ بن گئے اس اچانک راتوں رات سیاسی کھیل پر کئی سوال اُٹھنے فطری ہی تھے ،کہ ایسی جلدبازی آخر کیا تھی پردھان منتری کو گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی رپورٹ پر فیصلہ لینے کے لئے بغیر کیبنٹ کی میٹنگ کے اپنے مخصوص کا اختیارات کا استعمال کرنا پڑا؟ظاہر ہے اس مخصوص اختیارات کا استعمال کسی بے حد ہنگامی حالات کے لئے سہولت رکھی گئی ہے ،اس کے پہلے اس کا سب سے پہلے استعمال ملک میں امرجنسی لگانے کے لے سورگیہ اندرا گاندھی نے کیا تھا پھر گورنر محترم کو بغیر ضروری جانچ کے ایسی کون سی جلدی تھی کہ فڑنویس اور اجیت پوار کو حلف دلانے کی ؟سرکار بنانے کے لئے تو چھ مہینے کا وقت تھا حالانکہ بھاجپا اور فڑنویس و اجیت پوار کے اس دعوے پر بھی سوال کھڑے ہو گئے ہیں کہ این سی پی کے 54ممبر اسمبلی واقعی ہی ان کے ساتھ ہیں ؟معاملہ حلف برداری کا سپریم کورٹ میں پہنچ گیا تھا ۔جہاں اس نے تینوں فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ فڑنویس سرکار کو جمعرات شام پانچ بجے سے پہلے اکثریت ثابت کرنی ہوگی ،اس کے بعد مہاراشٹر سے دہلی تک ہلچل بڑھ گئی اور پہلے اجیت پوار نے استعفی دیا اور اس کے بعد فڑنویس کو استعفی دینا پڑا ۔اس پورے واقعہ میں سب سے اہم رول این سی پی چیف شرد پوار اور ان کے بھتیجے اجیت پوار کا رہا چونکہ ان کے ذریعہ اپنے چچا شرد پوار کے خلاف بغاوت کر کے بی جے پی کے ساتھ مل کر سرکار بنوا دی ۔سیاسی واقف کاروں کے لئے یہ واقعہ انہونا نہیں ہے ۔اس بات کا اندیشہ لوک سبھا چناﺅ کے دوران ہی لگنے لگا تھا ،مہاراشٹر کے اس مشہور سیاسی گھرانے میں سے ایک پریوار خاندان میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے ۔جس وجہ سے شردپوار کو جنتا کے سامنے یہ کہنا پڑا کہ یہ صرف اجیت پوار کا ذاتی فیصلہ ہے پارٹی کا نہیں ہے ۔مہاراشٹر کے سب سے طاقتور سیاسی گھرانے میں یہ پوری لڑائی کی ایک بڑی وجہ مراٹھا سیاست کے سرکردہ شرد پوار کے سیاسی جانشین کو لے کر ہے ۔شرد پوار قریب 80سال کے ہو گئے ہیں ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی شرد پوار کی بیٹی سپریا سلے اور اجیت پوار کے درمیان سیاسی جا نشینی کو لے کر کافی دنوں سے شہ مات کا کھیل چل رہا ہے ۔اس سال ہوئے لوک سبھا چناﺅ میں خاندان کے درمیان چل رہی یہ جنگ کھل کر سامنے آگئی لوک سبھا چناﺅ کے دوران این سی پی چیف شرد پوار نے اعلان کیا تھا کہ وہ بھاول سیٹ سے چناﺅ لڑیں گے اسی لوک سبھا سیٹ سے بعد میں اجیت پوار کے بیٹے پارتھ پوار نے بھی چناﺅ لڑنے کا دعوی ٹھوک دیا تھا ۔بھاول سیٹ کے لئے اجیت پوار نے دباو ڈالا تو شر دپوار پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ اگلی پیڑھی کو موقع ملے گا ۔اجیت پوار نے اس سیٹ سے چناﺅ لڑا اور انہیں ہار کا سامنا کرنا پڑا یا یوں کہیں کہ انہیں ہروا دیا گیا ۔اس کے بعد شرد پوار نے اپنے دوسرے بھتیجے کو زیادہ ترجیح دینا شروع کر دیا بھاجپا کے ساتھ سرکار بنانے کے اجیت پوار کے فیصلے کے بعد سے ان کے خلاف انفورسمینٹ ڈائرکٹریٹ (ای ڈی)کے ذریعہ کیس کھولنے کی قیاس آرائیاں شروع ہونا فطری تھا حالانکہ سچائی یہ بھی ہے کہ خود شرد پوار سمیت این سی پی کے کئی سینر لیڈر مرکزی جانچ ایجنسیوں کے نشانے پر ہیں ۔اجیت پوار کے ساتھ ہی شرد پوار کے خلاف دو مہینے پہلے ہی مہاراشٹر اسٹیٹ کواپریٹو بینک گھوٹالے میں ای ڈی نے منی لانڈرنگ کا کیس درج کیا تھا وہیں این سی پی کے سنیر لیڈر پرفل پٹیل جہازرانی سیکٹر کے کئی گھوٹالوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔2007اور 2011کے درمیان ہوئے 25ہزار کروڑ روپئے کے ایم ایس سی بینک گھوٹالے کے بارے میں ممبئی ہائی کورٹ کے حکم پر ممبئی پولس کی معاشیاتی کرائم برانچ نے ایف آئی آر درج کی تھی ۔جس میں شرد پوار اور اجیت پوار سمیت ستر افراد نامزد ملزم ہیں ۔کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ سینچائی گھوٹالہ کیس میں بھی اجیت پوار پھنسے ہوئے ہیں ۔اپنی جان بچانے کے لئے اجیت پوار نے دیوندر فڑنویس کا ساتھ دیا ۔اس کا سیاسی حلقوں میں کافی بحث چھڑی ہوئی ہے ۔ابھی ڈرامہ جاری ہے دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے ؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!