6ماہ میں 95ہزار 700 کروڑروپئے بینک گھوٹالے
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ ریزرو بینک کے مطابق پبلک سیکٹر کے بینکوں کے ذریعہ دی گئی رپورٹ کے مطابق سال کے دوران ایک اپریل 2019سے 30ستمبر 2019تک کی معیاد میں 95760.49کروڑ روپئے کی جعلسازی کے 5743معاملے سامنے آئے یہ بے حد سنگین ہے اور اس سے صاف ہے کہ سرکار کے ذریعہ سخت قانون بنانے کے باوجود اسے روکنے کے لئے بہت کچھ کیا جانا ابھی باقی ہے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس سنگین مسئلے پر دکھ جتاتے ہوئے جمعرات کو آڈیٹر کنٹرول جنرل (کیگ )سے سرکاری محکموں میں جعلسازی کی جانچ پڑتال کے لئے نئے تکنیکی طور طریقے اپنانے پر زور دیا تھا ،انہوںنے کہا اس پہل کے ذریعہ بھارت کو 5000 ارب ڈالر کی معیشت بنانے کی راہ آسان ہوگی ۔بینکوں میں جعلسازی سے متعلق ریزرو بینک کی رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب ایم پی اے اثاثوں میں کمی سے ایسا مانا جانے لگا تھا کہ بینک آہستہ آہستہ پٹری پر لوٹ رہے ہیں ۔ریزرو بینک کی رپورٹ یہ صاف وضح کرتی ہے کہ موجودہ مالی سال کے آغاز یعنی چھ مہینے میں اپریل سے ستمبر تک پبلک سیکٹر بینکوں سے 95760کروڑ روپئے کی گھپلے بازی ہوئی ہے ۔پچھلے اگست میں پبلک سیکٹر بینکوں کو نئی زندگی دینے کے تحت سرکار نے جو ستر ہزار کروڑ روپئے بینکوں کو دیے تھے ا س سے کہیں زیادہ تو چھ مہینے میں جعلسازی میں ہی نکل گئے ۔پچھلے مالی سال میں بینکوں میں 71543کروڑ روپئے کا گھوٹالہ ہوا تھا 2017-18میں جعلسازی کے اعداد و شمار پہلے کے مقابلے میں کم یعنی 41167کروڑ روپئے کا ایم پی اے تھا ۔صرف یہی نہیں بینک گھوٹالے کے 90فیصدی پبلک سیکٹر بینکوں کا ہے ۔بلکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سرکار ،بینک اور جانچ ایجنسیوں کی چوکسی کے باوجود گھوٹالے کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں ۔ان کی ایک بہت بڑی وجہ بینک حکام کا ان گھوٹالوں میں شامل ہونا اور ان کی ملی بھگت کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے ۔ہم نے دیکھا کہ نوٹ بندی کو بھی فیل کرنے میں بینک حکام کا بہت بڑا ہاتھ تھا اچھی سے اچھی اسکیم اس کے ٹھیک ڈھنگ سے عمل نہ ہونے کے سبب فیل ہو جاتی ہے ۔اور اس کا خمیازہ سرکار اور دیش کی جنتا کو ہوتا ہے ۔ریزرو بینک بھی اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتا ۔پبلک سیکٹر بینکوں پر سخت نگرانی رکھنے کا کام ریزرو بینک کا ہے ۔اس کام میں وہ پوری طرح فیل ہو رہی ہے ۔انہیں وجوہات سے بینکوں میں دھوکہ دھڑی رک نہیں پا رہی بلکہ این پی اے بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔آخر سرکار کب تک نیا سرمایہ بینکوں کو دے سکتی ہے ؟یقینی طور پر سرکار کو سختی کرنی ہوگی ۔اور ان دھوکہ دھڑی کے معاملوں پر لگام کسنی ہوگی ریزرو بینک کو بھی بینکوں کے سینر حکام کے ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکالنا ہوگا ۔نہیں تو تیزی سے بڑھتا دیش کا وکاس رک جائے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں