تنازعات میں گھرا یورپی ممبران پارلیمنٹ کا وادی دورہ
جموں و کشمیر کے کلگامیں دہشتگردوں نے منگل کی رات پونے نو بجے غیر کشمیری مزدوروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔یہ واردات ایسے وقت ہوئی جب یورپی یونین کے 23ممبران پارلیمنٹ کا نمائندہ وفد کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کےلئے ریاست کے دو دن کے دورے پر تھا ۔جموں وکشمیر کے چیف سیکریٹری بی بی آر سبرامنیم نے سری نگر میں جس جگہ ان ممبران پارلیمنٹ کے ڈنر رکھا تھا وہاں سے 68کلو میٹر دور دہشتگردوں نے اس حملے کو انجام دیا ۔یورپی یونین کے وفد کے کشمیر دورے پر کافی ہنگامہ ہو رہا ہے ۔یورپی یونین کے کل 27ممبرا ٓئے تھے لیکن 23ہی کشمیر گئے 4دہلی سے ہی لوٹ گئے ۔حکام نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی ۔لیکن بتایا جاتا ہے کہ ان چاروں ممبران بغیر سیکورٹی کے مقامی لوگوںسے ملاقات کی مانگ رکھی تھی جسے حکومت نے نہیں مانا یورپی یونین کے لبرل ڈیموکریٹ ممبر برطانیہ کے کرس ڈیوس نے الزام لگایا کہ یہ بھارت سرکار کا پی آر اسٹنٹ ہے اور اس کا حصہ نہیں بننا چاہتا ۔اس لئے انڈیا سے واپس آگیا ۔مرکزی حکومت نے یورپی ممبران پارلیمنٹ کے دورے کو ذات نوعیت کا بتایا ۔ومینس اکنومک اینڈ سوشل تھنک ٹینک نامی این جی او نے اس دورے پر خرچ کیا ہے ۔16سال پرانی این جی او کو مادی شرما چلاتی ہیں اس دورے کو لے کر اپوزیشن پارٹی کانگریس،کمنسٹوں کے علاوہ بھاجپا کے سینر لیڈر اور ایم پی ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے بھی سوال اُٹھائے ہیں ۔سوامی نے سیدھے طو ر پر یورپی یونین کے نمائندہ وفد کے کشمیر دورے پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری قومی پالیسی سے الٹ ہے ۔کانگریس سیکریٹری جنرل پرینکا واڈرا نے سرکار کے اس قدم پر نکتہ چینی کی ہے انہوںنے مودی سرکار کو اڑے ہاتھوں لینے ہوئے کہا کہ ہندوستانی ممبران پارلیمنٹ کو وہاں جانے سے روکنا غیر ملکی ممبران پارلیمٹ کو اجازت دینا انوکھا راشٹر واد ہے ۔انہون نے ٹوئٹ کر کے کہا کہ کشمیرمیں یورپی ممبران پارلیمنٹ کو سیر سپاٹا اور مداخلت کی اجازت ہے لیکن ہندوستانی ممبران پارلیمنٹ اور نیتاﺅں کے کشمیر ہوائی اڈے پر پہنچتے ہی واپس بھیجا جاتا ہے ۔بسپا صدر مایاوتی نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں کو کشمیر جانے کی اجازت دی جاتی تو اچھا ہوتا انہوںنے کہا کہ جموں و کشمیر میں لاگو رہے ارٹیکل 370کو ختم کرنے کے بعد وہاں کی موجودہ حالات کا تجزیہ کرنے کے لئے یورپی فیڈریشن کے ممبران پارلیمنٹ کو جموں کو کشمیر بھیجنے سے پہلے سرکار اپنے ملکی اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ کو وہاں جانے کی اجازت دیتی تو اچھا ہوتا ۔منگل کو جب 27یورپی یونین کا گروپ سری نگر گیا تو ہندوستانی فوج کے حکام سے ملاقات کی اور ریاست کی ڈل جھیل میں کھڑے شکاروں میں بیٹھ کر ڈل جھیل کی سیر کی اور یہ سب بھاری سیکورٹی میں ہوا ۔بدھ کے روز کشمیر ی دورے کے بعد ان ممبران پارلیمنٹ نے میڈیا سے خطاب کیا اور میڈیا سے اپنی رائے ظاہر کی ۔سری نگر میں موجود بی بی سی کے نامہ نگا ر ریاض مسرور کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس میں مقامی میڈیا کو نہیں آنے دیا گیا ۔اور ممبران پارلیمنٹ کے وفد کے کشمیر آتے ہی یہ وفد فوج کے ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا اور فوج نے ہی کنٹرول لائن دکھای نیشنل کانفرنس کے ایم پی اکبر لون کا کہنا تھا کہ بین الا اقوامی برادری کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے وفد میں شامل ایک برطانیوی ایم نے بتایا کہ یہ لو گ بین الا اقوامی نمائندہ وفد کا حصہ ہیں ۔بھارت قیام امن کے لئے دہشتگردی کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور ہم اس کی پوری کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ہم اس کی پوری حمایت کرتے ہیں ۔ہم حکومت ہند اور مقامی انتظامیہ کے ذریعہ گرمجوشی سے کئے گئے استقبال کے لئے شکریہ ادا کرتے ہیں یہ پہلی مرتبہ ہے جب جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد کسی بین الاقوامی ٹیم کو جموں وکشمیر جانے کی اجازت دی گئی ہے ۔پانچ اگست کو ارٹیکل 370کو ہٹانے کے بعد جموں و کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا مرکزی سرکار کے اس یورپی یونین وفد کے دورے پر دلیل ہے کیونکہ پاکستان کشمیر کو لے کر کس طرح دنیا کے ذہن میں گمراہی پیدا کر رہا ہے ۔اور آرٹیکل 370ہٹانے کے بعد سے وہ وادی کشمیر میں کس طرح کی سازشیں رچ رہا ہے اس کا بخوبی علم دنیا کے کافی ملکوں کو ہے اور مرکزی حکومت کی منشا ہے کہ یورپی یونین کا نمائندہ وفد صوبے کا دورہ کرے اور وہاں جاری ترقیاتی کاموں اور بحالی امن کے لئے سنجیدہ کوششوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھے بے شک اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔لیکن حکومت کو ایسی فراخ دلی دیش کی سیاسی پارٹیوں کے نیتاﺅں کو لے کر بھی دکھانی چاہیے ۔غیر ملکی وفد کے اور اپنے دیش کے نیتاﺅں کے دورے پر روک لگانے کا غلط سندیش جا رہا ہے ۔یورپی یونین کے وفد کے دورے کے دوران وادی کشمیر میں مختلف حصوں میں تشدد او ر مظاہرے بھی ہوئے ہیں ،سری نگر نے مضافاتی اور 90فٹ روڈ سے کم پانچ سڑکوں پر پتھر اور دوسری طرح کی چیزوں سے ناکا بندی کی تھی ۔لوگوں کے پتھراﺅ سے نمٹنے کے لئے مقامی پولس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا جس میں کئی لوگ کئی لوگ زخمی ہوئے تھے ۔سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ مادی شرما کون ہیں ؟جس نے اس دورے کا انتظام کیا ؟اس دورے کا خرچ کس نے برداشت کیا ؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں