دیوی لال کی دوسری ،تیسری ،چوتھی ،پیڑھی ایکساتھ اسمبلی پہنچی

مئی میں لوک سبھا چناﺅ کے دوران جس طرح مودی میجک نے ہریانہ میں بھاجپا کو ریکارڈ جیت نصیب کرائی تھی وہیں پانچ مہینے بعد ہی حکمراں بھاجپا کو جھٹکا لگا ہے ۔75پار کا نشانہ لے کر چل رہی ہریانہ بھاجپا 40سیٹوں کا نمبر بھی بشمل ہی چھو پائی اس کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت وزیر داخلہ امت شاہ ،یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ،اسمرتی ایرانی،ہما مالنی ،سنی دیول،راجناتھ سنگھ،نتن گڈکری جیسے بڑ ے چہروں سمیت چالیس اسٹار کمپینروں نے اپنی پوری طاقت جھونکی تھی ۔باوجود اس کے بھاجپا اپنے نشانے سے کامیابی سے دور رہی ۔اور آخرکار اسے جے جے پی کے ساتھ اتحادی سرکار بنانی پڑی ۔ہریانہ کے آخری کنارے پر بسے چوٹالہ گاﺅں کے پانچ ممبراسمبلی چودھویں اسمبلی میں پہنچے ہیں ۔چودھری دیو ی لال کے بیٹے رنجیت سنگھ سے ،پوتے اجے سنگھ ،پوتے کی بہو نیہا چوٹالہ ڈاکٹر ،پڑ پوتے دشینت چوٹالہ ،اچانا اور امت سہاگ ڈبوالی سے ممبراسمبلی بنے ہیں یہ ریاست اور دیش کا شاید پہلا خاندان ہے جس کے چودھری دیو ی لال کی دوسری ،تیسری،اور چوتھی پیڑھی ایک ساتھ اسمبلی پہنچی ہے ۔بھاجپا نے ہریانہ میں دشینت چوٹالہ کی جن نائک پارٹی سے اتحاد کر جاٹوں کو ایک بار پھر شیشے میں اتارنے کی کوشش کی ہے ایسا کرنے سے جاٹ فرقہ کابھاجپا کے تئیں پھر بھروسہ لوٹے گا ۔اسے ہریانہ ہی نہیں آنے والی دہلی اسمبلی چناﺅ اور دیگر ریاستوں میں بھی اس کوشش کا فائدہ مل سکتا ہے ۔بتا دیں کہ پچھلے جمعرات کی رات سے ہی ۔بھاجپا کے ساتھ ایک الگ چینل سے بھاجپا نے بات شروع کی تھی اسے وزیر مملکت انورائے ٹھاکر کروا رہے تھے ،انوراگ ٹھاکر کے دشینت چوٹالہ سے قریبی تعلقات بھی ہیں ۔اور دونوں نوجوان لیڈروں نے کئی دور کی بات چیت کر بھاجپا اور جے جے میں اتحاد طے کرا لیا تھا ۔ساری باتیں طے ہونے کے بعد احمد آباد گئے پارٹی صدر امت شاہ کو پیغام بھیجا گیا اس کے بعد انہوںنے دہلی آکر دشینت چوٹالہ سے فائنل بات کی ۔اس بات چیت میں مسئلہ نائب وزیر اعلیٰ کا رہا جس پر بھاجپا نے رضا مندی جتا دی بھاجپا ویسے بھی گوپال کانڈا سے حمایت لینے سے کترانے لگی تھی کیونکہ کانڈا کے خلاف اپوزیشن کو چھوڑ پارٹی کے اندربھی مخالفت ہونے لگی تھی اس لئے اسے لگا کہ جے جے پی سے اتحاد کرنے میں ہی پارٹی کو زیادہ فائدہ ہے ۔ہریانہ کی سیاست میں مخالفوں کے ساتھ اتحادکر کے اقتدار کی سیڑھی چڑھنے کی روایت ریاست کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی سیاسی طور سے امرجنسی میں دیوی لال،بنسی لال،بھجن لال،جیسے دبنگ لیڈروںنے اتحاد کر کے اقتدار حاصل کیا ۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہریانہ کو کبھی بھی اتحا دکی سیاست راس نہیں آئی 1977میں چودھیر دیوی لال کی قیادت میں پہلی بار یہ اتحاد بنا کچھ وقت بعد بھجن لال نے دیوی لال سرکار گر ادی اور 1980میں بھجن لال کانگریس میں شامل ہوئے اور سرکار بنا لی 1987میں دیو ی لال نے بھاجپا سے اتحاد کر سرکار بنائی ان میںاوم پرکاش چوٹالہ سرکار بنے بھاجپا نے سرکار توڑ دیا اور سرکار اقلیت میں آگئی 1996میں بنسی لال نے ہریانہ وکاس پارٹی بنائی ۔بھاجپا کے ساتھ اتحادک کرکے ایکشن میں آگئے 1999 میں بھاجپا نے حمایت واپس لے لی تو بنسی لال سرکار گر گئی 2009میں جن ہت کانگریس بھاجپا اتحاد شروع ہوا ،نظریاتی اختلاف ہونے کے سبب اور 2014میں جن ہت کانگریس اور بی ایس پی کا اتحاد ہوا یہ بھی اتحا دنہیں چلا اب حال ہی میںبی ایس پی اور آئی این ایل ڈی نے پھر اتحاد کیا پھر انڈین نیشنل لوک دل اور بی جے پی کا اتحاد ہوا تو اوم پرکاش چوٹالہ بھی اقتدار کی سیڑھی چڑھ گئے لیکن یہ اتحاد بھی لمبا نہیں چلا اور ہریانہ میں لوک دل سرکار اقلیت میں آگئی ،مرکز میں بھاجپا سے حمایت واپس لے لی اس درمیان ہوئے لوک سبھا چناﺅ کے درمیان لوک دل میں بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کیا ۔یہ اتحاد بھی نہیں چلا اگر ہریانہ میں اتحادی حکومتوں کی بات کریں تو یہ تجربہ اچھا نہیں رہا ۔بھاجپا کا ٹریک ریکارڈ بھی اتحادی حکومتوں کا اچھا نہیں رہا ۔لیکن امید کرتے ہیں اس مرتبہ بھاجپا اور جے جے پی کی بنی اتحادی سرکار لمبی چلے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!