مہنگائی کے باوجود دھن تیرس پر ریکارڈ خریداری

سونے کی قیمتیں آسمان چھونے کے باوجود پیر کے روز دھن تیرس پر جم کر ریکارڈ بکری ہوئی ۔کمزور روپئے کے بعد دھن تیرس پر لوگوں نے جم کر خریداری کی صرافہ بازار سے لے کر گاڑیوں کے شو روم تک میں گراہکوں کی بھیڑ لگی رہی بازاروں میں بھیڑ کے سبب سڑکوں پر جام لگا رہا۔ایک اندازہ کے مطابق صر ف ایک دن میں صرافہ کاروبار 35سو کروڑ تک پہنچ گیا۔دہلی اور نوئیڈا کے صرافہ بازاروں میں ایک ایک ہزار کروڑ روپئے کی بکری ہوئی ۔دھن تیرس میں سب سے زیادہ خریداری برتنوں کی ہوتی ہے اس کے بعد سونے کا نمبر آتا ہے اس دن جو لوگ سونا نہیں خرید پاتے وہ امید اور چاہت کے ساتھ اگلے دھن تیرس کا انتظار کرتے ہیں۔اور محلوں میں یہی تذکرہ رہتا ہے کہ کیا خریدا اور کتنا سونا خریدا ۔تہوار پر خریداری کے لئے دہلی این سی آر کے سبھی شہروں کے بازاروں میں لوگوں کی ایسی بھیڑ امڑی کی بازاروں میں پیر رکھنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔دہلی کے چاندنی چوک کے مشہور جوہری بازار کوچہ مہاجنی میں تو داخلے کے لئے لوگوں کو قطاروں میں لگ کر انتظارکرنا پڑا ۔اندر پورا بازار بھرا ہوا تھا۔اور دہلی پولس کے جوان بھی نگرانی کے لئے بھی تعینات تھے۔ایک طرف جہاں سونے چاندی کی 10اور بیس گرام کے سکوں کی خاص مانگ رہی تو لوگوں نے سرمایہ کاری کے لحاظ سے زیورات میں خاص دلچسپی دکھائی ۔چاندی کے سکے مورتیوں کے ساتھ ہی تھالی ،گلاس،لوٹا،گھنٹی،مندر سمیت کئی دوسری چیزوں کی لوگوں نے خریداری کی۔حالانکہ کی سونے کی قیمتیں دہلی میں 32690روپئے فی دس گرام جو سال 2017میں دھن تیرس کے دن 30710روپئے فی دس گرام کے مقابلہ دو ہزار روپئے زیادہ تھی اس سے بھی گراہکوں پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔اس بارے میں دریبہ جویلرس ایسوشی ایشن کے پردھان ترن گپتا نے بتایا کہ دھن تیرس نے کاروباریوں کو کافی دنوں کے بعد مسکرانے کا موقہ دیا۔کافی اچھا کاروبار ہوا اس سے بازار کوبھی فائدہ ہوا۔جانکاروں کے مطابق اس موقع پر بھی شادی کے لئے زیورات کی خرید ہوئی ۔زیورات کے مقابلے میں سونے کے سکوں کی مانگ زیادہ تیز بتائی گئی ہے۔اس سے دو باتیں تو ثابت ہوتی ہیں ایک دہلی کے مڈل کلاس کے لوگوں کے پاس بہت زیادہ نقدی ہے دوسرے نوٹ بندی کے بعد لوگ اپنے گھروں میں نقدی رکھنے کے بجائے سونا رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس کتنی بلیک منی ہے۔لیکن یہ اچھا ہے کہ یہ بلیک منی باہر بازار میں آرہی ہے اس سے نہ صر ف زیورات سے جڑے کاروباریوں کو فائدہ ہوگا بلکہ معیشت کوبھی تقویت ملے گی۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟