رافیل سودے میں بے قاعدگیوں کو ثابت کرنے کی ذمہ داری اب اپوزیشن پر

چھائے رافےل جنگی جہاز سودے مےں مرکزی حکومت نے جو جواب سپرےم کورٹ مےں داخل کےا ہے ۔اس سے تو اپوزےشن کو اب ثابت کرنا ہوگا کہ اس سودے مےں کہاں کہاں ،کےسے کےسے گڑبڑی ہوئی ہے ۔کانگرےس سمےت تمام اپوزےشن نے حکومت پر تما م طرح کے الزام لگا ئے ہےں ۔اب تک رافےل کی قےمت پر خاموش رہی مودی سرکار نے پےر کو سےل بند لفافہ مےں سپرےم کورٹ کو بتا ےہ جہاز کتنی قےمت کا پڑا حکومت نے ےہ بھی پبلک کردےا ہے کہ پورا سودا کتنے مےں ہوا۔حالانکہ پچھلی سماعت مےں مرکز نے دلےل دی تھی قےمت جےسی معلومات راز قانون کے تحت آتی ہےں اور ہم نے پارلےمنٹ کو بھی ےہ جانکاری نہےں دی ہے ۔اس پر عدالت نے حکومت سے حلف نامہ مانگاتھا ۔سرکار کی طرف سے داخل رپورٹ مےں بتاےاگےا کہ ےوپی اے کی 2013کی ڈےفنس خرےد کارروائی سے ہی 36رافےل جہازوں کاسودا ہواہے ۔اسے 24اگست 2016کو سےکورٹی پر کےبےنٹ نے منظوری دی تھی ۔سال بھر مےں فرانسےسی فرےق کے ساتھ 74مرتبہ مےٹنگ اس کو فائنل کےا گےا اور 23ستمبر 2016کو بھارت اور فرانس کی حکومتوں کے درمےان دستخط ہوئے تھے ۔ فرانس کی کمپنی دسالٹ کے مقابلے بھارت مےں رافےل بنانے کے لئے اےچ اے اےل نے دو اعشارےہ سات گنا وقت مانگا اس لئے ان سے سمجھوتہ نہےں ہوسکا تھا ۔قےمت کو لےکر کانگرےس کے الزامات پر فرانسےسی کمپنی کے سی ای او اےرےک ٹوپےچر نے بتاےاکہ بھارت کو اس سودے مےں جہاز پہلے کے مقابلے 9فےصدی سستا مل رہا ہے ۔الزا م تراشےوں کے درمےان فرانسےسی کمپنی کی طرف سے وضاحت اہم ہے ۔کمپنی کے سربراہ نے سودے سے وابستہ ہر پہلو پر کھل کر بات رکھی دسالٹ اےوےشن نے دعوی کےا ہے کہ ےہ سودا صاف ستھرا اور9فےصدی سستا ہے کمپنی کے سی ای او نے اےک ملاقات مےں کہا کہ 18تےار جنگی جہازوں کی جتنی قےمت ہے ،اسے دام مےں 36جہازوں کا سودا کےا گےا دام دوگنے ہونے چاہےئے تھے لےکن چونکہ ےہ دوحکومتوں کے درمےان معاہدہ ہوا اور قےمتےں انھوں نے ہی طے کی اس لئے ہمےں بھی 9فےصدی کم دام پر سودا کرنا پڑا ۔ انھوں نے بتا ےا رےلائنس کو آفسےٹ پارٹنر چننے کا فےصلہ ان کی کمپنی کا تھا رےلائنس کے علاوہ 30کمپنےاں بھی جڑی ہوئی ہےں ۔کانگرےس کے الزامات پر ٹوپےچر نے بتاےا کہ مےں جھوٹ نہےں بولتا جو ہم نے پہلے کہا تھا وہےں آج بھی کہہ رہا ہوں ۔مےری ساکھ جھوٹ بولنے والے کی نہےں ہے انڈےن اےئر فورس اس سودے سے خوش ہےں ادھر کانگرےس صدر راہل گاندھی نے کہا سرکار نے حلف نامہ مےں مانا ہے کہ انھو ں نے بغےر ائےر فور س سے پوچھے ٹھےکہ بدلا اور 30ہزار کروڑ روپے امبانی کے جےب مےں ڈالا ۔پکچر ابھی باقی ہے مےرے دوست وزےر خزانہ ارون جےٹلی نے پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ کانگرےس رافےل سودے پر غلط فہمی پھےلانے کوشش کررہی ہے ۔ےوپی اے حکومت نے سودے کو لٹکائے رکھا جب کہ ےہ جہازوں کےلئے ضروری تھا سپرےم کورٹ کی نگرانی مےں رافےل سودے کی سی بی آئی چانچ ہوں ےا نہےں اس پر 4گھنٹے بحث کے بعد عدالت نے فےصلہ محفوظ کرلےا ہے عدالت نے عرضی گذاروںکے ساتھ سرکار کی صفائی اور فضائےہ کو بھی سنا حالانکہ رافےل کی قےمت کو سامنے لانے کی مانگ کررہے عرضی گذاروں کو اس وقت جھٹکا لگا جب کورٹ نے کہا کہ ہم خود قےمت کو نہےں کھولےں گے ۔تب تک اس پر کوئی بحث نہےں ہوگی ۔رےلائنس ڈےفنس کو آفسےٹ ٹارنٹر بنانے پر پرشانت بھوشن نے کہا رےلائنس ڈےفنس کے پاس اےسی صلاحےت نہےں ہے اسے فائدہ پہنچانے کےلئے حکومت ہند کے کہنے پر اےسا ہوا ۔رےلائنس ڈےفنس کو پارٹنربنانے کےلئے قواعد بدلے گئے ےہ کرپشن ہے ۔اس پر سپرےم کورٹ نے پوچھا کہ 2015مےں آفسےٹ گائڈ لائنس کےوں بدلی گئی ؟اس پر وزارت دفاع کے افسرنے کہا کہ قواعد مےں 2014مےں تبدےلےاں ہوئی تھےں اور انھےں 2015مےں منظور کےا گےا ۔جسٹس کے اےم جوزف نے سوال اٹھاےا کہ اگر آفسےٹ پارٹنر ہٹتا ہے تو کون ذمہ دار ہوگا اس پر افسر نے بتاےا کہ آفسےٹ پارٹنر کے بارے مےں پوزےشن واضح نہےں ہے ۔اس پر عدالت کا کہنا تھا معاہدہ کے مطابق 3مہےنے مےں آفسےٹ کی تفصےلات (داسا)کو دےنی ہے تو آپ کےسے کہہ سکتے ہےں کہ آپ کو واضح جانکا ری نہےں ملی ہے ۔ججوں نے پوچھا ائےر فورس سے کوئی ہے کےا ؟اس کے بعد ائےر مارشل وائےر وائس مارشل کو بلاےا گےا ان سے پوچھا آخری بار جےٹ ڈےفنس مےں کب شامل ہوئے تھے ؟افسروں نے بتاےا کہ آخری کھےپ 1985مےں مےراج جہازوں کی کھےپ ملی تھی ۔پڑوسی ملکوں کی تےارےوں کو دےکھتے ہوئے جدےد جنگی جہازوں کی سخت ضرورت ہے ۔ےہ ڈےل بھارت اور فرانس کی حکومتوں کے درمےان نہےں ہے جےسے چےن جنگ کے دوران ہوئی تھی ےہ داسا کے ساتھ کاروباری سودا وسمجھوتہ ہے ۔مرکز نے مانا فرانس کی حکومت نے 36جنگی جہازوں کی کوئی گرانٹی نہےں دی ہے لےکن اس سے لےٹر آف کنفرٹ ملا ہے ۔جو گرانٹی ہی جےسا ہے حکو مت کی طرف سے اٹارنی جنرل نے رافےل سودے کے خلاف سماعت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عدالت ےہ فےصلہ نہےں کرسکتی کہ کونسا جہاز اور کونسے ہتھےار خرےدے جائے ےہ ماہرےن کا کام ہے عدلےہ نظر ثانی نہےں کرسکتی ۔انھوں نے کہا اگر دام کی پوری معلومات سامنے آجائے تو حرےف پارٹےاں اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔اب دےکھنا ےہ ہے کہ کےا پورے سودے کی مختلف نکات پرسچائی سامنے آئے گی ےا نہےں کےا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگا ؟اپوزےشن کے دواہم الزام کے پہلا ےہ کہ اس سودے مےں پےمانہ جاتی کارروائی پر تعمےل نہےں کی گئی اور رےلائنس ڈےفنس کو آفےسٹ کنٹرےکٹ دےنے کے لئے حکومت نے کہا تھا کہ اس نے دونوں الزامات کا جواب دےدےا ہے اس کے باوجود اپوزےشن اپنی بات پر اڑی ہوئی ہے اب چونکہ معاملہ کورٹ نے ماتحت ہے اس لئے امےد کی جاتی ہے بصد احترام عدالت ان سبھی اشوز پر فےصلہ سنائے گی ۔لےکن اتنا ضرور ہے کہ سرکار کے جواب سے اپوزےشن بےکفٹ پر آگئی ہے اور اسے ثابت کرنا ہوگا ےہ صرف چناوی اشو نہےں ہے بلکہ اس مےں بے قاعدگےاں بڑھتی گئی ہےں اب ان کو ثابت کرنے کی ذمہ دار ی اپوزےشن پر آگئی ہے ۔

(انل نرےندر)



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟