لال قلعہ کو گود دینے پر سیاسی جنگ

دہلی کے لال قلعہ کو ڈالمیہ بھارتیہ گروپ کے ذریعے پانچ سال کے لئے 25 کروڑ روپے میں گود لینے پر سیاسی جنگ چھڑ گئی ہے۔ اس کی کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ شیو سینا نے بھی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے سرکار تاریخی وراثت کو پرائیوٹائز کررہی ہے۔کانگریس نے پوچھا ہے کہ کیا مودی سرکار کا یہی ’نیو انڈیا‘ ہے؟ کیا وراثت کی دیکھ بھال کے لئے سرکار کے پاس پیسہ نہیں ہے؟ مرکزی سرکار نے اس معاملہ میں صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ لال قلعہ سے کمپنی پیسہ نہیں کمائے گی بلکہ تاریخی جگہ پر لوگوں کے لئے سہولیات ملیں گی۔ ایک معاہدے کے مطابق ڈالمیہ گروپ وراثت اور اس کے چاروں طرف بنیادی ڈھانچہ کا رکھ رکھاؤ کرے گی۔ وزارت سیاحت کے مطابق ڈالمیہ گروپ نے 17 ویں صدی کی اس تاریخی عمارت پر چھ مہینے کے اندر بنیادی سہولیات مہیا کرانے پر رضامندی جتائی ہے۔ اس میں پینے کے پانے کے کھوکھے، سڑکوں پر بیٹھنے کے لئے بینچ لگانا، آنے والوں کو جانکاری دینے کیلئے علامتی بورڈ لگانا شامل ہیں۔ گروپ نے اس کے ساتھ ہی دو نقشہ لگانا ٹوائلٹ اور قلعہ کی سجاوٹ کے کام پر رضامندی جتائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ وہاں سے ایک ہزار مربع فٹ کے علاقہ کے دائرہ میں آنے والوں کو سہولیات سینٹر بنائے گی۔ دراصل اس سال امکانی نگراں متروں کا سلیکشن ہوگا، ان کا کمپلیکس معائنہ و دیکھ بھال کمیٹی کے ذریعے کیا گیا ہے تاکہ 95 یادگاروں پر سہولیت کا ڈولپمنٹ کیا جاسکے۔ ان یادگاروں میں لال قلعہ، قطب مینار، ہمپی (کرناٹک) ، سوریہ مندر (اڑیسہ)، اجنتا گپھا (مہاراشٹر)، چارمینار (تلنگانہ) اور قاضی رنگا نیشنل پارک (آسام) شامل ہیں۔ ترنمول کانگریس کی چیف و مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے ٹوئٹ کیا کہ کیا سرکار ہمارے تاریخی لا ل قلعہ کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی۔ لال قلعہ ہماری قوم کی علامت ہے ، یہ ایسی جگہ ہے جہاں یوم آزادی پر بھارت کا قوم پرچم لہرایا جاتا ہے ، اسے کیا پٹے پر دیا جانا چاہئے؟ ہماری تاریخ میں مایوس کن اور کالا دن ہے۔ مارکسوادی پارٹی نے کہا کہ سرکار نے ایک طرح سے لال قلعہ کو ڈالمیہ گروپ کو سونپ دیا ہے۔ ڈالمیہ گروپ نے اپنی پریس نوٹ میں کہا ہے کہ وہ شروعات میں پانچ سال کے لئے اس کے مالک ہوں گے اور سمجھوتہ انہیں ڈالمیہ برانڈ کی پرفارمینس کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ پارٹی نے آگے کہا ہے کہ اس کے پاس جگہ پر منعقدہ پروگراموں کے دوران اور علامتی بورڈ پر سبھی طرح کی پبلسٹی معلومات پر اپنا نام برانڈ کے نام پر استعمال کرنے کا اختیار ہے۔ واقعی اسے خاص طور سے دکھانے والے علامتی بورڈ میں یہ اعلان کرنے کی اجازت ہوگی کہ لال قلعہ کو ڈالمیہ گروپ نے گود لے لیا ہے۔ مارکسوادی پارٹی نے کہا لال قلعہ آزاد بھارت کی علامت ہے اور اسے کارپوریٹ کمپنی کو سونپا جانا توہین مذہب سے کم نہیں ہے۔ وزیر مملکت سیاحت مہیش شرما نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ لال قلعہ سمیت کئی تاریخی عمارتوں کا تحفظ اور سیاحوں کو زیادہ سہولیات دینے کے لئے نجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے۔ ان کو منافع کمانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ عمارتوں میں ہونے والے پروگراموں سے کمائے گئے پیسے کا استعمال انہی کے رکھ رکھاؤ پر خرچ کیا جائے گا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا معاہدہ ہوا ہے۔ مرکزی سرکار سے منظوری ملنے کے بعد ہی ڈالمیہ گروپ سیاحوں سے فیس وصولنا شروع کرے گی۔ ویسے دنیا کے کئی ملکوں میں پرائیویٹ کمپنیاں تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں پھر بھی سرکار کے نظریئے پر سوال تو کھڑے ہوتے ہی ہیں۔ کیا سرکار نے مان لیا ہے کہ ان عمارتوں کا مجموعی طور پر رکھ رکھاؤ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!