برف پگھلی 65 سال بعد!اُن اور اِن کا ملن

برسوں سے کٹر دشمن رہے نارتھ اور ساؤتھ کوریا کے لئے جمعہ کا دن تاریخی رہا۔ جنگ کے قریب65 سال بعد پہلی بار نارتھ کوریا کا کوئی بڑا سربراہ ساؤتھ کوریا پہنچا وہ بھی پیدل بارڈر پار کرکے۔ ساتھ ہی کوریا کے چیف کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے دیش کی سرحد میں لیکر آئے کم جانگ ان نے بھی گیسٹ بک میسج میں کہا کہ ایک نئی تاریخ کی شروعات ہے۔ یہ کشیدگی پر ڈپلومیٹک کوششوں کی جیت کا دن تھا۔ پچھلے جمعہ کو جو ہوا اسے ایشیا ہی نہیں پوری دنیا لمبے عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ دو الگ الگ مقامات پر دو سربراہ مملکت نے سرحد پار کی اور رشتوں پر جمی برف پگھلنے لگی۔ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی جب ہمالیہ پہاڑ سیریز کو سر کر کے چین پہنچے تو وہ سارے اندیشات ختم ہونے لگے جو پچھلے کچھ عرصے سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو اچانک بڑھانے لگے تھے۔ مودی اور جنگ پنگ ملاقات کے مقابلے کم اور اُن کی ملاقات زیادہ سرخیوں میں بنی ہوئی ہے اس لئے یہ مسئلہ اگلے کچھ دنوں میں چھایا رہے گا۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات پرپوری دنیا کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں۔ اسے اس سیکٹر کے لئے کافی نہیں لیکن پورے سیریا کے لئے اہم ترین مانا جارہا ہے۔ پورے خطہ میں قیام امن کی سمت میں ایک اہم ترین قدم مانا جارہا ہے۔ جلد ہی اُن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملنے والے ہیں۔ جون میں ان کی مجوزہ بات چیت ہے۔ اس بات چیت میں نارتھ کوریا اور امریکہ کے درمیان کوئی مستقل معاہدہ یا کچھ مدعوں پر آپسی رضامندی قائم ہوجائے تو دنیا راحت کی سانس لے۔ اس سے نارتھ کوریا میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ لیکن امریکہ اور نارتھ کوریا میں سب کچھ ایک جھٹکے میں ٹھیک ہوجائے اس کی امید نہیں ہے۔ کم جانگ ان نے بھلے ہی اپنے نیوکلیئرپروگرام کو بندکرنے کا دعوی کیا ہے لیکن امریکہ اس کا پورا تخفیف اصلاح چاہتا ہے مطلب یہ ہے کہ کم جانگ اپنے اب تک کے بنائے ہوئے سارے ہتھیار تباہ کردے اور اپنی نیوکلیائی بھٹیوں میں ریت بھروادے۔ وائٹ ہاؤس نے صاف کہا ہے کہ جب تک نارتھ کوریا نیوکلیائی تخفیف اصلاح نہیں کرتا تب تک پابندی جاری رہے گی۔ دراصل اس قت دونوں کوریا کے درمیان جو کچھ بھی چل رہا ہے، ٹرمپ اور کم کی ملاقات پر ٹکا ہے۔ جو کچھ جمعہ کو گزرا اس نے بتادیا ہے کہ اسٹیٹ حکمرانی کی عقلمندی بھری گرمجوشی ان تمام مہموں اور کھنچ تان پر بھاری پڑتی ہے، جو دیشوں کے درمیان درجہ حرارت بے وجہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ ان ملاقاتوں کا کیا نتیجہ نکلے گا ،لیکن شروعات تو ہوئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!