پہلے سے مضبوط لیکن اب بھی چیلنج برقرار

راجیہ سبھا کی 59 سیٹوں پر ہوئے چناؤ نے ایوان بالا راجیہ سبھا کی تصویر کو بہت حد تک بدل دیا ہے۔ نمبروں کے لحاظ سے این ڈی اے نے حالانکہ کانگریس پر بھاری بڑھت بنا لی ہے مگر اس کے باوجود یہ اتحاد اکثریت سے بہت دور ہے۔ اس چناؤ میں بھاجپا کو 14 مزید سیٹیں ہاتھ لگی ہیں جبکہ 245 ممبری راجیہ سبھا میں این ڈی اے کے ممبروں کی تعداد 76 سے برھ کر 92 ہو گئی ہے۔ بھگوا پارٹی راجیہ سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ پارٹی کے ممبران کی تعداد بڑھ کر اب 69 ہوگئی ہے لیکن اکثریت سے پارٹی ابھی کوسوں دور ہے۔ لیکن ایوان بالا میں بھاجپا اب پہلے کے مقابلہ میں بہترپوزیشن میں آگئی ہے۔ پارٹی انا ڈی ایم کے سمیت کچھ دیگر کانگریس پارٹیوں کو صاف کر بل پاس کرانے جیسے کام کاج آسانی سے نپٹا سکے گی۔ اس دوران اس کے لئے کانگریس کو کنارہ کرنا بھی اب پہلے کے مقابلہ میں آسان ہوگیا ہے۔ جمعہ کو ہوئے راجیہ سبھا چناؤ کے بعد بھاجپا کی جھولی میں 28 سیٹیں آئی ہیں۔ اس میں بھاجپا کو11 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔ کانگریس نے 10 سیٹوں پر جیت درج کی جبکہ پہلے اس کا ان میں سے14 سیٹوں پر قبضہ تھا۔ اس طرح پارٹی کو 4 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ 245 نفری ایوان میں اب بھاجپا کی سیٹیں بڑھ کر 92 ہو گئیں اور کانگریس کی سیٹیں گھٹ کر 54 سے 50 رہ گئی ہیں لیکن بھاجپا اور این ڈی اے دونوں ہی اکثریت سے دور ہیں۔ اکثریت کے لئے 123 سیٹیں چاہئیں۔ بھاجپا کو ابھی حال میں ایک اور جھٹکا لگا جب چار سال سے ان کی اتحادی جماعت تیلگو دیشم پارٹی نے اس سے ناطہ توڑدیا۔ ایوان میں اس وقت ٹی ڈی پی کے 6 ممبر ہیں۔ بہرحال کانگریس اور سماجوادی پارٹی جیسے اپنی بڑی اپوزیشن پارٹیوں کی تعداد میں گراوٹ سے بھاجپا خیمہ کافی خوش ہے۔ سپا کی جھولی میں صرف 1 سیٹ آئی ہے جبکہ ایوان میں اس کے 6 ممبروں کی میعاد اب ختم ہونے جارہی ہے۔ بھاجپا کے ذرائع نے بتایا کہ مودی سرکار اب ایوان میں پہلے کافی آسان پوزیشن میں تھی کیونکہ سرکار مخالف ایجنڈے پر انا ڈی ایم کے، پی آر ایس، وائی ایس آر کانگریس اور بی جے ڈی جیسی این ڈی اے کی باہر والی علاقائی پارٹیوں کی حمایت ملنے کا امکان ہے۔ درکار نمبر نہ ہونے کے سبب مودی سرکار کے ذریعے لائے گئے بل لوک سبھا میں پاس ہونے کے باوجود راجیہ سبھا میں آکر اٹک جاتے ہیں۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں کے متحد ہوجانے سے مودی سرکار کو بل پاس کرانے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مودی سرکار کی میعاد 2019 میں ختم ہورہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ راجیہ سبھا میں اسے اب بھی کافی مشقت کرنی پڑے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!