گورودواروں میں لنگر سے جی ایس ٹی ہٹاؤ

بڑے دکھ کی بات ہے کہ گورودواروں میں جو لنگر ضرورت مندوں کو بغیر ذات یا غریب امیر کے امتیاز کے بغیر مفت کھلایا جاتا ہے اس پر بھی جی ایس ٹی لگتا ہے۔ پچھلے دنوں شرومنی گورودوارہ پربندھک کمیٹی کی طرف سے بتایا گیا کہ 7 ماہ میں اسے لنگر پر 2 کروڑ روپے تقریباً جی ایس ٹی کی شکل میں ادا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح دہلی گورودوارہ کمیٹی کا بھی کہنا ہے کہ اسے بھی اسی وقت لنگرپر 1 کروڑ سے زیادہ جی ایس ٹی ادا کرنا پڑا ہے۔ انہی اعدادو شمار کی بنیاد پر ان اداروں کے سربراہوں کے ذریعے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو خط لکھا اور ان سے ملاقات کر گورودواروں میں بانٹے جا رہے لنگر کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ کیا جائے۔ دوسری طرف مرکزی وزیر کی جانب سے یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ مندروں گورودواروں میں بانٹا یا کھلایا جانے والا لنگر جی ایس ٹی سے مستثنیٰ ہے۔ دونوں فریقین کے ذریعے کئے جارہے دعوؤں میں سے کسی بھی فریق کے دعوی کو غلط یا سچائی سے پرے قرار دیا جانا بہت مشکل ہے۔ ایسے میں اگر دونوں فریقین کے دعوؤں کو سنجیدگی سے لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں کسی نہ کسی وجہ یاتو غلط فہمی کی صورتحال بنی ہوئی ہے یا پھر ایک دوسرے کی بات کو سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ واقف کاروں کا کہنا ہے کہ ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ لنگر جی ایس ٹی سے مستثنیٰ ہے جبکہ دہلی گورودوارہ کمیٹی اور دوسری کمیٹیاں اس بات سے انکار کررہی ہیں کہ جی ایس ٹی نہیں لگ رہا ہے۔واضح ہو کہ لنگر تیار کرنے کے لئے جس سامان آٹا، دالیں، گھی، مسالہ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اس پر انہیں جی ایس ٹی ادا کرنا ہی پڑتا ہے اس لئے گورودوارہ کمیٹیاں چاہتی ہیں کہ لنگر میں جس سامان کا استعمال کیا جائے اسے جی ایس ٹی سے مستثنیٰ کیا جائے۔ بتادیں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں 1 لاکھ لوگوں کو لنگر میں کھانے کا موقعہ ملتا ہے۔ شری دربار صاحب میں جو بڑا دروازہ (درشنی پوڑی) اس سے پہلے ہی لنگر کی جگہ ہے جو اس مقصد کی طرف اشارہ ہے کہ گورو صاحب کے درشن کے لئے دربار کمپلیکس میں داخل ہونے سے پہلے گورو گھر کی روایت کے مطابق پہلے پنگھت میں بیٹھ لنگر کھانا ضروری ہے۔ ہم گورودوارہ کمیٹیوں کی مانگ کی حمایت کرتے ہیں اور سرکار سے اپیل کرتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالے تاکہ گورو کے لنگر پر جی ایس ٹی نہ لگے۔
(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!