معافی نہیں تو سمجھوتہ بھی نہیں

دہلی کے وزیر اعلی کی رہائش گاہ پر مار پیٹ کے چیف سکریٹری کے الزامات کے درمیان عام آدمی پارٹی کے اتم نگر سے ممبر اسمبلی نریش بالیان کا یہ کہنا کہ کام نہ کرنے والے افسر کی پٹائی ہونی چاہئے، قابل مذمت تو ہے ہی شرمناک بھی ہے۔ اس کا کیا مطلب نکالا جائے کہ سی ایم اروند کیجریوال کے سرکاری مکان پر چیف سکریٹری سے مار پیٹ ہوئی۔ وہ ایک حادثہ نہیں تھا ۔ کیا اسے سازش کے تحت انجام دیا گیا تھا؟ دہلی پولیس نے پہلے ہی عدالت کو بتایا تھا کہ وزیر اعلی کی رہائش گاہ پر رات 3 بجے عام آدمی پارٹی کے ممبران نے جس طرح چیف سکریٹری پر حملہ کیا تھا اس میں ان کی جان بھی جا سکتی تھی۔ ذرائع کے مطابق چیف سکریٹری انشو پرکاش بڑی مشکل سے عاپ ممبران اسمبلی کے چنگل سے نکل کر بھاگ سکے تھے۔ دراصل جس طرح آدھی رات کو میٹنگ میں آنے کے لئے انہیں بار بار فون کیا جارہا تھا وہ شبہ میں تھے۔ مگر یہ اندیشہ پھر بھی نہیں تھا کہ ان پر یوں جان لیوا حملہ کیا جائے گا۔ وزیراعلی نے نہ تو پیر کی رات انشوپرکاش پر حملہ کو روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی نریش بالیان کو ٹوکا جب وہ حکام کو پیٹنے کی بات کہہ رہے تھے۔ کیا وزیر اعلی کی خاموشی ان کی حمایت کا اشارہ دیتی ہے؟ یہ پوزیشن ظاہر کرتی ہے کہ عاپ ممبران اسمبلی تہذیب کھو چکے ہیں اورا ن کے نیتا یا خودساختہ مارگ درشک انہیں تہذیب کی صلاح دینے کے خواہشمند نہیں ہیں۔ ہم دہلی سرکار کے حکام کا خوف اور بے عزتی سمجھ سکتے ہیں۔ دہلی سرکار کے ملازمین کے جوائنٹ فورم نے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل اور پولیس کمشنر امولے پٹنائک سے اپیل کی تھی کہ وہ چیف سکریٹری انشو پرکاش کے ساتھ مبینہ ہاتھا پائی معاملہ میں وزیر اعلی اور نائب وزیر اعلی کے خلاف کارروائی کریں۔ ملازمین کے مشترکہ فورم کی میٹنگ کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فورم کی نمائندہ پوجا جوشی نے بتایا کہ وزیر اعلی اور نائب وزیر اعلی واقعہ سے انکارکررہے ہیں۔ وہ سازش کا حصہ ہیں اس لئے ان پر کارروائی ہونی چاہئے۔ فورم نے پیر کو ہوئی میٹنگ میں اس معاملہ پر ایک ریزولوشن پاس کیا جس میں کہا گیا ہے کہ جب تک کیجریوال اور منیش سسودیہ خاص طور پر تحریری اور کھلے عام معافی نہیں مانگے جب تک افسران کی پرائیویٹ سکیورٹی اور عزت یقینی کرنے کے لئے قدم نہیں اٹھاتے ،تب تک وہ عاپ کے وزرا کے ساتھ کام کا ج میں صرف تحریری خط و کتاب کا استعمال کریں گے۔ جوائنٹ میٹنگ میں پاس ریزولوشن میں کہا گیا ہے کہ اپنی غلطی مان کر معافی مانگنے کے بجائے وزیر اعلی اس واقعہ سے انکار کررہے ہیں جو یہ دکھاتا ہے کہ وہ سازش کا حصہ تھے۔ ایسا نہیں کہ سرکار اور افسران میں ٹکراؤ پہلے نہیں ہوا لیکن جو حالت دہلی میں پیدا ہوئی ہے وہ نہ صرف خطرناک ہے بلکہ باعث تشویش بھی ہے۔ کئی افسران نے دہلی سرکار سے ہٹنے کی بھی درخواست دی ہے۔ ہماری رائے میں شری اروند کیجریوال اور شری منیش سسودیہ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ حالت پیدا نہ ہو جو ان کے خلاف اور دہلی کے شہریوں کے لئے نقصاندہ ہو۔ ترقی کا جو کام بھی ہورہا تھا وہ اس ٹکراؤ سے متاثر ہوگا۔ سرکار اور عاپ کے سینئر لوگوں کو اس بحران کا حل کرنے کے لئے خیال کرنا چاہئے۔ انہیں اپنے ممبران کو تہذیب سے پیش آنے کی صلاح دیتے ہوئے حکام کے ساتھ پیدا ہوئے ٹکراؤ کو دور کرنے کیلئے ایمانداری سے آگے آکر سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ اس تنازع کو حل کرنے کے لئے لیفٹیننٹ گورنر بھی اپنا رول نبھا سکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!