بڑھتے این پی اے بینکوں کو کھوکھلا کررہے ہیں

دیش کے پبلک سیکٹر بینکوں کی مالی حالت باعث تشویش بنتی جارہی ہے۔ معیشت کے لئے ناسور بنے پھنسے قرض یعنی این پی اے کی وصولی کے لئے انسالوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ( آئی بی سی)کو لیکر بھلے ہی بڑی امیدیں ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ این پی اے ایسا مرض ہے جس کے علاج کے لئے اب تک کئے گئے نسخہ فیل ہورہے ہیں۔ حال کے برسوں میں این پی اے کی وصولی کے اعدادو شمار حقیقت بیاں کرتے ہیں۔ کمرشل بینک کاروبار کرتے وقت مختلف حالات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اشخاص اور کمپنیوں کو قرض دیتے ہیں۔ عموماً کچھ پیسہ این پی اے (نان پرفارمینس اثاثے) ہوجاتی ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو بینکوں کا کچھ قرض پھنس جاتا ہے جس کی وقت پر ادائیگی نہیں ہورہی ہے۔ ریزرو بینک کے مطابق ستمبر 2017 کے اختتام پر دیش میں درج فہرست کمرشل بینکوں (ایس سی بی ) کا جی ڈی پی ، این پی اے ان کے کچھ قرض کا 10.2 فیصد ہوگیا ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں این پی اے سے کیا ہوتا ہے اور بینک اس کی پہچان کیسے کرتے ہیں۔ آر بی آئی کے مطابق بینکوں کو اگر کسی قرض سے سود آمدنی ملنا بند ہوجاتی ہے تو اسے این پی اے مانا جاتا ہے۔ مثال کے لئے بینک نے جو پیسہ ادھار لیا ہوا ہے اس کی مالیت پر سود کی قسط اگر90 دن تک واپس نہیں ملتی تو بینکوں کو اس لون کو این پی اے میں ڈالنا ہوتا ہے۔ کوئی لون کھاتہ مستقبل قریب میں این پی اے بن سکتا ہے اس کی پہچان کے لئے آر بی آئی نے قاعدے بنا رکھے ہیں۔ بینکرپسی فرم کریڈٹ سوئس نے اندازہ لگایا ہے کہ نئے تقاضوں سے دو لاکھ کروڑ روپے کے فاضل این پی اے کا بوجھ بینکنگ سیکٹر پر پڑے گا۔ یعنی ایسا ہوا تو مارچ 2018 تک ہندوستانی بینکوں کا این پی اے موجودہ9.40 لاکھ کروڑ سے بڑھ کر 11 لاکھ کروڑ روپے کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ این پی اے نے ایک طرح سے سرکاری بینک کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔ اکتوبر ۔ستمبر 2017 کی سہ ماہی میں 17 برسوں کے بعد ایس بی آئی کو 2416 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اسی میعاد میں بینک آف انڈیا کو 2341 کروڑ ، کارپوریشن بینک کو 1240 کروڑ، انڈین اوورسیسز بینک کو 971 کروڑ اور یونائیٹڈ بینک آف انڈیا کو 637 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ این پی اے کا مسئلہ پچھلے دو برسوں میں بیحد سنگین ہوچکا ہے۔ حکومت کی طرف سے اب تک اٹھائے گئے سارے قدم ناکام رہے ہیں۔ اس کا معیشت پر بھاری اثر پڑ رہا ہے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!