جنرل راوت کے بیان سے سیاسی پارٹیوں میں کھلبلی
فوج کے چیف جنرل بپن راوت کے بنگلہ دیشی دراندازوں اور اس کے چلتے آسام میں اے آئی یو ڈی ایف جیسی پارٹی کی سیاسی مضبوطی پر دئے گئے بیان نے سیاسی رنگ لے لیا ہے۔ فوج کے چیف جنرل راوت نے کہا تھا کہ نارتھ ایسٹ میں بنگلہ دیش سے پرواسیوں کی منصوبہ بند گھس پیٹھ پاکستان کے ذریعے درپردہ جنگ کی طرح لی جارہی ہے۔ اسی وجہ بدرالدین اجمل کی لیڈر شپ والی یو آئی یو ڈی ایف کا فروغ 1980 کی دہائی میں بھاجپا کے مقابلہ میں کافی تیزی سے ہورہا ہے۔ آسام کی اے آئی یو ڈی ایف پارٹی کے نیتا بدرالدین اجمل نے جنرل راوت کے بیان پرتلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئین فوج کے چیف کو سیاست میں دخل اندازی کا حق نہیں دیتا۔ لوک سبھا ممبر اور اے آئی ایم آئی ایم کے چیف اسد الدین اویسی نے کہا کہ فوج کے چیف کو سیاسی معاملوں میں مداخلت نہیں کرنی چائے۔ کسی سیاسی پارٹی کے فروغ پر بیان دینا ان کا کام نہیں ہے۔ جمہوریت اور آئین اس کی اجازت دیتا کہ بھارت میں فوج ہمیشہ چنی ہوئی سول حکومت کے ماتحت کام کرتی رہے گی۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کوئی نئی یا خفیہ بات نہیں کہ نارتھ ایسٹ ہندوستان کی ریاستوں میں بنگلہ دیش سے ہورہی دراندازی کی سازش کا بھی حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں میں بھی آبادی کے توازن کو بدلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کئی علاقوں میں تو یہ بدل بھی گیا ہے اور اسی وجہ سے تمام مسائل بھی کھڑے ہورہے ہیں لیکن بنگلہ دیش سے ہونے والی دراندازی کو روکنے کے لئے جیسی کوشش ہونی چاہئے ویسی نہیں ہورہی ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ جب کبھی بنگلہ دیش سے آئے ناجائز دراندازوں کو واپس بھیجنے کی بات ہوتی ہے تو اس پر کسی نہ کسی دلیل و اعتراض کھڑا کرنے والے سامنے آجاتے ہیں۔ جنرل راوت نے صحیح کہا ہے کہ بنگلہ دیش سے ہورہی دراندازی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے اور اس معاملہ میں چین بھی اس کی مدد کررہا ہے۔ بلا شبہ ایک ماڈل پوزیشن یہی کہتی ہے کہ فوج کے چیف کو سیاسی پارٹیوں کے فروغ یا زوال کی تیزی پر بیان بازی سے بچنا چاہئے لیکن کیا نارتھ ایسٹ کے حالات اس حالت کی علامت ہیں؟ مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے ووٹ بینک کی خاطر جنرل راوت کے بیان پر ہنگامہ کھڑا کرسکتی ہیں لیکن اس سچائی سے منہ نہیں موڑا جاسکتا کہ مغربی بنگال، آسام کے ساتھ نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں کس طرح کچھ سیاسی پارٹیوں نے بنگلہ دیشی دراندازوں کو سرپرستی دے کر اپنی سیاسی پیٹھ تھپتھپائی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں