مودی سرکار کا بڑا فیصلہ : حج سبسڈی ختم

مرکزی سرکار نے منگلوار کو ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو حج یاترا کے لئے دی جانے والی سبسڈی ختم کردی ہے۔ مرکزی وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس سال سے حج پر کوئی سبسڈی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا حج پر سبسڈی کا انتظام ختم ہونے کے باوجود 2018 میں 1.75 لاکھ ہندوستانی مسلمان حج پر جائیں گے۔ سرکار ہر سال700 کروڑ روپے حج یاترا کی سبسڈی پر خرچ کرتی ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عازمین حج کی سبسڈی ہٹائی گئی ہے۔ حج پر دی جانے والی سبسڈی ختم ہونی ہی تھی کیونکہ سپریم کورٹ نے سال2012 میں بھی 10 برسوں میں مرحلہ وار اس کو ختم کرنے کے احکامات دئے تھے۔ بتادیں کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ سبسڈی اقلیتی برادری کو لالچ دینے جیسا ہے اور سرکار کو اس پالیسی کو ختم کردینا چاہئے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سرکار آہستہ آہستہ اس سبسڈی کو ختم کرے۔ سپریم کورٹ نے مرکز کو 10 سال کا وقت دیا تھا یعنی 2022 تک سبسڈی پوری طرح ختم کی جانی تھی اس حکم کی سب سے بڑی بنیاد اسلامی روایت بنی تھی کہ حج تو اپنے پیسوں سے ہی کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ ایک سیکولر دیش میں حج کے لئے سبسڈی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اگر مرکزی سرکار نے طے میعاد سے چار سال پہلے ہی حج سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کا مطلب ہے کہ مسلم سماج کے تعلیمی بھلائی کے لئے جو پیسہ 2022 سے خرچ ہونا تھا وہ اسی سال سے خرچ ہونے لگے گا۔ حکومت کا کہنا ہے یہ فیصلہ اقلیتوں کی خوش آمدی کئے بغیر لیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے عام طور پر مسلمان خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے سبسڈی نہیں روزگار چاہئے، لیکن جو پیسہ بچا کر مسلمان لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کی بات کی جارہی ہے وہ نہ کی جائے بلکہ دیش کی سبھی لڑکیوں کی بات کی جائے نہیں تو یہ خوش آمدی ہی ہوگی۔ انہوں نے کہا یہ فیصلہ بہت دیر سے ہوا۔ حج کرنے غریب انسان نہیں جاتا اور نہ حج ان پر واجب ہے بلکہ حج کرنا اسی مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس خرچ کے علاوہ اتنا پیسہ ہے کہ وہ سفر کرسکے۔ یہ پیسہ دیش کی غریب جنتا کے مفاد میں خرچ ہو تو اچھا ہے۔ ایک مسلمان کا کہنا تھا کہ سبسڈی مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ سچ تو یہ تھا کہ ایئرانڈیا کو دلدل سے نکلنے کے لئے سبسڈی دی جاتی تھی۔ اب مسلمان اچھی اور زیادہ سہولت والی فلائٹ سے سفر کرسکیں گے۔ دہلی ویلفیئر ایسوسی ایشن سے وابستہ جامع مسجد کے باشندے کہتے ہیں کہ جو مسلمان حج کرنے جاتا تھا وہ اب بھی جائے گا۔ اس سے مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ جہاں ڈیڑھ لاکھ روپے مسلمان یاترا پر خرچ کرسکتا ہے وہاں 10 ہزار روپے اور بھی کرسکتا ہے۔ فتحپوری مسجد کے امام مفتی محمد مکرم احمد کہتے ہیں کہ کھٹارہ جہازوں میں سفر کرکے نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔ سبسڈی کے اس پیسے کو بچا کر مسلم لڑکیوں پر خرچ کرنے کی بات کہی جارہی ہے وہ نہ کی جائے بلکہ دیش کی سبھی لڑکیوں پر خرچ ہو۔ حج کے لئے سبسڈی کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ عازمین حج کو ایسی کوئی سہولت اسلامی ملکوں میں نہیں دی جاتی لیکن بھارت میں خوش آمدی کی سیاست کے تحت ایسا کئے جانے لگا۔ بلا شبہ حج سبسڈی ختم کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ حج مسافروں کو سہولت دینے کے علاوہ انہیں سستے سفرکے متبادل کرانے سے منہ موڑا جائے۔ اب پانی کے جہاز سے حج یاترا کی بات ہورہی ہے۔ اسے یقینی بنانے کی کوشش ہونی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!