84 کے دنگوں کا بدنماداغ

1984 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہوئے سکھ دنگوں میں اپنا سب کچھ کھو چکے خاندانوں کے لئے سپریم کورٹ نے بھاری راحت دی ہے۔عدالت نے ان 186 معاملوں جنہیں بغیر کسی وجہ بند کردیا گیا تھا، اس کی جانچ کے لئے ایس آئی ٹی بنانے کے احکامات دئے ہیں۔ یہ کتنا تکلیف دہ ہے کہ ان دنگوں کے متاثرین کو 34 سال بعد بھی انصاف نہیں مل سکا۔ حالانکہ اس قتل عام کے لئے اب تک 10 کمیشن اور کمیٹیاں بن چکی ہیں لیکن خون خرابہ کرنے والے ابھی بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ متاثرین کو اگر انصاف کی ذرا سی امید ہے تو وہ عدلیہ سے ہی ہے۔ ان دنگوں میں تین ہزارسے زائد لوگ مارے گئے تھے۔ اکیلے دہلی میں ڈھائی ہزار سے زیادہ لوگوں کو مارا گیا تھا تب سے سکھوں کی حمایت پانے کے لئے وقتاً فوقتاً جانچ اور معاوضے کے اعلان ہوتے رہے ہیں۔ لیکن انصاف کا تقاضہ کبھی پورا نہیں ہوسکا۔ دراصل دنگوں کی جانچ جن محکموں کو کرنی تھی سب سے بڑا سوال تو اس کے رول پر ہی اٹھتا ہے۔ پولیس نے نہ صرف شکایتوں کو نظر انداز کیا بلکہ کئی معاملوں میں سکھوں پر ہوئے حملوں میں بھیڑ کا ساتھ تک دیا۔ یہی اس کانڈ کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ سپریم ورٹ کے ایس آئی ٹی بنانے کے فیصلے سے متاثرہ خاندانوں کو انصاف ملنے کی امید جہاں ایک بار پھر جاگی ہے وہیں سابق ایس آئی ٹی کے سست اور لچر رویئے سے اندیشہ بڑھ جاتا ہے کیافساد متاثرین کو انصاف ملے گا جس کی آس میں یہ لوگ ابھی بھی انصاف پر بھروسہ بنائے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے 1984 کے 186 معاملوں کی نئے سرے سے جانچ کے لئے دہلی ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شیو نارائن ڈھینگرا کی قیادت میں تین نفری ایس آئی ٹی بنائی ہے۔ آئی پی ایس افسر ابھیشیک دلار اور ریٹائرڈ آئی جی راجیو سنگھ بھی اس میں ہیں۔ چیف جسٹس دیپک مشرا نے دو مہینے میں اسٹیٹس رپورٹ دینے کو کہا ہے۔ بتادیں جسٹس ڈھینگرا وہی ہیں جنہوں نے ملزم افضل گورو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ 1990ء میں ترلوک پوری میں 150 قتلوں کے قصوروار کشوری لال کو بھی موت کی سزا سنائی تھی۔ یہ سچ ہے کہ جن کا سب کچھ برباد ہوچکا ہو ،لٹ چکا ہو اسے اسی شکل میں واپس نہیں کیا جاسکتا۔ انصاف ملنے سے ان کا درد کافی حد تک کم ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!