آزادی سے لیکرعدالتوں میں التوا میں پڑا ایودھیا تنازعہ
ایودھیا کے متنازعہ ڈھانچے کو گرائے جانے کے معاملے میں 25 سال بعدمبینہ سازش رچنے والوں کے خلاف منگل کو پھر سے مقدمہ شروع ہوگیا۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایودھیا میں 1992ء میں ڈھانچہ مسماری معاملہ کی سماعت کررہی مخصوص عدالت نے منگل کے روز بھاجپا کے سینئر لیڈروں سرو شری لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھاری اور ایم پی ونیکٹیار سمیت سبھی12 ملزمان کے خلاف الزامات طے کردئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی 25 سال بعد سازش کے معاملے کا مقدمہ شروع ہوگیا۔ اس سے پہلے نچلی عدالت اور پھر ہائی کورٹ نے انہیں سازش کے الزام سے آزاد کردیا تھا۔ مخصوص عدالت نے ان لیڈروں کے خلاف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے اور بے چینی پیداکرنے اور نقص امن کو خطرہ پیدا کرنے کے علاوہ مذہبی کٹرپسندی کا ماحول بنانے کی سازش رچنے کے الزامات طے کئے ہیں۔ بدھوار سے گواہی شروع ہوگئی۔عدالت کوروزانہ سماعت کرتے ہوئے دوسال میں فیصلہ دینا ہوگا۔ 12 ملزمان کے علاوہ دیگر ملزمان کے خلاف سابقہ میں مخصوص عدالت الزامات طے کرچکی ہے جو الزامات لگائے گئے ہیں انہیں ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک تو معاملہ قریب 25 سال پرانا ہے اور دوسرے اس دعوے کو لگاتار چنوتی ملتی رہی ہے کہ ڈھانچہ کو گرانے کی کوئی سازش نہیں کی گئی تھی۔ عام خیال یہی ہے کہ اس پس منظر میں اور جذبات میں آکر بھیڑ بے قابو ہونے کا نتیجہ تھا ایودھیا ڈھانچے کی مسماری۔ اگرچہ ڈھانچہ مسماری کی کوئی سازش رہی بھی ہوگی یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں اڈوانی اور جوشی جیسے نیتا بھی سانجھے دار تھے۔ دیش کی سیاست اور سماجی تانے بانے کو متاثر کرنے والے ایودھیا اشو کے پس منظر میں یہ کہا نہیں جاسکتا مگر یہ معاملہ دیش کی لمبی کارروائی کی پیچیدگیوں کی نشاندہی ضرور کرتا ہے۔ سی بی آئی عدالت کے وکیل آر کے یادو نے بتایا کہ آنے والی تاریخوں پر مقدمہ لگاتار چلے گا اس میں اہم گواہیاں ہوں گی۔ سی بی آئی کی لسٹ میں 894 گواہ ہیں ان کی گنتی کی جائے گی اور جو گواہ زندہ ہے عدالت میں اسے بلایا جائے گا۔ اگر وہ عدالت میں موجود نہیں ہوتے تو اس کے لئے حاضری معافی کی عرضی دینی ہوگی جس پر عدالت فیصلہ لے گی۔ یادو کے مطابق معاملہ میں اب تک رائے بریلی میں چلے مقدمے کے دوران بھی گواہیاں ہوئی ہیں اور ملزمان کے وکیل چاہیں تو لکھنؤ کورٹ میں بھی شفٹ کرنے کے لئے ان کی گواہی کی مانگ کرسکتے ہیں۔ یہ عدالت کے ضمیر پر منحصر ہوگا کہ وہ کس گواہ کو بلائے یا نہیں۔ ایک سوال جو عام طور پر پوچھا جارہا ہے کہ کیا اب جب اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی پر مقدمہ چل رہا ہے تو کیا وہ صدر نہیں بن سکتے؟ مجرمانہ سازش کے الزامات کے باوجود راشٹرپتی بھون کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ مجرمانہ سازش کا مقدمہ جاری رہنے کے باوجود وہ صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں۔ معاملہ بس صرف اخلاقیات سے جڑا ہے کیونکہ سماعت دو سال تک چلے گی، لہٰذا اگلے لوک سبھا چناؤ میں یہ اشو نئے سرے سے طول پکڑسکتا ہے۔ سماعت جب آخری دور میں ہوگی تبھی لوک سبھا چناؤ ہورہے ہوں گے اور آئینی ماہر سبھاش کشیپ نے کہا کہ مجرمانہ مقدمہ جاری رہتے ہوئے صدارتی چناؤ لڑنے کو لے کر قانونی روک نہیں ہے۔ آئین میں ایسے حالات کا سامنا کررہے لیڈر کے راشٹرپتی چناؤ لڑنے پرروک نہیں ہے۔ بھاجپا اگر چاہے تو انہیں صدارتی امیدوار بنا سکتی ہے۔ موجودہ لوک سبھا کی میعاد مئی 2019ء میں پوری ہوگی اور 2019 کے اپریل ۔ مئی میں چناؤ ہورہے ہوں گے۔ ایودھیا کا معاملہ آزادی کے فوراً بعد ہی عدالت کے سامنے پہنچا تھا اور دیش کو ابھی آخری فیصلے کا انتظار ہے۔ دراصل اس کیس میں اما بھارتی بھی ملزمہ ہیں جن کی وجہ سے یہ اخلاقی سوال کھڑا ہوسکتا ہے کہ انہیں کیبنٹ میں رہنا چاہئے یا نہیں؟ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ جس ایودھیا اور رام مندر کے دم پر اڈوانی نے ایک وقت بھاجپا کو دھار دی تھی آج وہ اس اشو پر کٹہرے میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں