برہمپتر پر بنے پل کی اہمیت اس کی لمبائی سے کہیں زیادہ

سرکار کے تین سال کا جشن منانے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی نے شمال مشرق خطے کو چنا۔ اس موقعہ کو یادگار بنانے کیلئے مودی نے آسام اور اروناچل پردیش کے درمیان برہمپتر ندی پر دیش کے سب سے بڑے پل کا افتتاح کیا۔ اس انتہائی پسماندہ نارتھ ایسٹ کو انہوں نے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) و انڈین ایگریکلچر ریسرچ کونسل کا بھی تحفہ دیا۔ جمعہ کو آسام کے سدور فیماجی کے گوگوا مکھ قصبے میں اروناچل پردیش کی سرحد پر منعقدہ ریلی میں لوگوں کے ہجوم کی موجودگی ظاہر کرتی ہے یہ پل ان کے لئے کتنا اہم ہے۔ بیشک یہ دیش کا سب سے بڑا پل ہے۔ پٹنہ کے مہاتما گاندھی سیتو اور سمندر کی اچھال لیتی لہروں پر بنے ممبئی ورلی سی لنگ بھی لمبا ہے لیکن وزیر اعظم نے آسام میں ڈھولا کو سدیہ سے جوڑنے والے جس 9.15 کلو میٹر لمبے پل کا افتتاح کیا اس کی اپنی اہمیت اس کی لمبائی سے کہیں زیادہ ہے۔ صرف مقامی سطح پر دیکھیں تو یہ برہمپتر ندی کے اس پار بسے سدیہ قصبے کے لئے کافی اہمیت کا حامل ہے جو سیدھا رابطہ نہ ہونے کے سبب باقی آسام سے الگ تھلگ ہوجاتا تھا۔ اب سدیو کے لوگوں کے لئے ایک نایاب ہی نہیں بلکہ پورے دیش تک پہنچنا بہت آسان ہوجائے گا۔سدیو کے لوگوں کو صرف جغرافیائی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے اس کا پورا اقتصادی مکینزم بھی بدل جائے گا۔مہا سیتو کے ذریعے سرحد پر دیش کی دفاعی ضرورتوں کو بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس مہا سیتو کا ڈیزائن اس طرح سے بنایاگیا ہے کہ یہ فوجی ٹینکوں کا بھی وزن برداشت کرسکے۔ یہ پل 60 ٹن وزنی جنگی ٹیک کا وزن بھی سہن کرنے میں اہل ہے۔ چینی سرحد سے ہوائی دوری 100 کلو میٹر سے کم ہے۔ مودی نے شمال مشرق کی ریاستوں کو کافی لمبی اپڈلکشمی نام سے نوازا۔ انہوں نے کہا کہ اپڈ لکشمی پرویش پنچ سے جوڑے گی۔ یہ پنچ پتھ 21 ویں صدی کے انفرسٹکچر کے ہوں گے جن میں ہائی وے ریلوے اور ایئرویز اور انفورمیشن ویز قابل ذکر ہیں۔ شمال مشرق کی ریاستوں کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے وکاس سے دیش کی قسمت بدلے گی۔ دہلی کی سرکار ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلے گی۔ ایک طرف اور اچھی بات یہ ہوئی کہ وزیر اعظم نے اس پل کا نام مشہور آسامی گلوکار بوپند ہزاریکا کے نام پر رکھ کر اسے علاقائی پہچان سے جوڑدیا۔ بوپیندر ہزاریکا کی پیدائش 91 سال پہلے سدیہ میں ہی ہوئی تھی جہاں سے نکل کر وہ پورے دیش کی موسیقی دنیا میں ایک طاقتور آواز بنے۔ ان کی آواز میں برہمپتر کی تیز لہروں کی کھنک ہمیشہ موجود رہی۔ اس سیتو کی مضبوطی ہے اہم نہیں ہے اس کے 118 وسیع کھمبے زلزلے کے بہت جھٹکوں کو بھی آسانی سے جھیل سکتے ہیں۔ ساتھ ہی برہمپتر میں اکثر آنے والی باڑھ بھی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!