صدارتی چناؤ کے بہانے اپوزیشن اتحاد کی کوشش

این ڈی اے کے تین سال کے جشن کے دن ہی آخر کار صدارتی چناؤ کے بہانے اپوزیشن اتحاد کی بنیاد رکھنے کی سونیا گاندھی کی کوشش کچھ حد تک کامیاب رہی اور کچھ معنوں میں اتنی کامیاب نہیں رہی ۔ کانگریس صدر کی پہل پر 17 اپوزیشن پارٹیوں کو ایک ساتھ میٹنگ میں بلانا ان کی کامیابی رہی۔ علاقائی سیاست میں دشمن مانی جانے والی پارٹیوں کو ایک اسٹیج پر لانے کی سونیا کی کوشش کامیاب رہی۔ یوپی سے بی ایس پی چیف مایاوتی اور ایس پی پردھان اکھلیش یادو کے علاوہ مغربی بنگال سے ترنمول کانگریس کی ممتا بنرجی ،لیفٹ لیڈر سیتا رام یچوری اور دیگر کمیونسٹ نیتاؤں کی ایک ساتھ موجودگی سیاست کے ذریعے سے بیحد اہم مانی جارہی ہے۔ سونیا کی اس ملاقات میں کانگریس کے علاوہ آر جے ڈی ، جے ڈی یو،سپا، بی ایس پی ، پی ٹی ایم، سی جے ایم ایم، کیرل کانگریس، نیشنل کانگریس، این سی پی، ڈی ایم کے ، اے آئی یو ڈی ایف، آر ایس پی، آل انڈیا مسلم لیگ، سی پی ایم، سی پی آئی، جے ڈی ایس کے نمائندوں نے حصہ لیا۔ خاص بات یہ تھی کہ اس میٹنگ میں عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال کو نہیں بلایا گیا وہیں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی جگہ جے ڈی یو کے قومی صدر شرد یادو پہنچے۔ کرپشن کے نئے الزامات میں گھرے قومی صدر راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو پرساد یادو کی موجودگی میں نتیش کے غائب رہنے پر سیاسی قیاس آرائیاں لگانا توطے تھا۔ بتادیں کہ صدر پرنب مکھرجی نے یہ صاف کردیا ہے کہ دوسرے عہد میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اس وجہ سے اس میٹنگ کی بہت اہمیت مانی جارہی ہے۔ سونیا گاندھی کی میٹنگ سے غائب رہے نتیش کمار پی ایم مودی کے لنچ میں شامل ہوئے۔ ان کے اس قدم سے ایک بار پھر ان کی بی جے پی سے نزدیکیاں بڑھنے کی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں۔ وہیں اپوزیشن کے اتحاد پر بھی سوال کھڑے ہورہے ہیں حالانکہ سونیا گاندھی کے ذریعے دئے گئے لنچ میں حصہ نہ لینے پر نتیش نے صفائی دی ۔ ان کا کہنا ہے لنچ پر میری غیر موجودگی کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔ میں سونیا جی سے اپریل میں ہی مل چکاتھا اور جن اشوز پر اس بار تبادلہ خیال ہونا تھا ان پر پہلے ہی غور و خوض کر چکا تھا۔ اس بار انہوں نے سبھی پارٹیوں کو لنچ پر بلایاتھا ۔بحران آنے سے پہلے اسے بھانپ لینا اور پھر اسی حساب سے قدم اٹھانا بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار بخوبی جانتے ہیں۔ ایک دو معاملوں کو اگر چھوڑدیا جائے تو ان کا حساب کتاب مقام اور عہد کے حساب سے عام طور پر فٹ بیٹھتا ہے۔بہار کی سیاست میں اپنے کٹر مخالف لالو یادو تک سے ہاتھ ملانے سے پیچھے نہیں رہے لیکن اب ساتھ چھوڑنے کی بات سامنے آرہی ہے۔ سیاست کے منجھے ہوئے اس کھلاڑی کے اگلے قدم پر سب کی نظر ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس پر سے پردہ کب اٹھتا ہے؟ دراصل وزیر اعظم کے سیاسی برانڈ پر سواربھاجپا ۔ این ڈی اے کو 2019ء کے عام چناؤ میں چنوتی دینے کے لئے کانگریس صدارتی چناؤ کے بہانے اپوزیشن پارٹیوں کو یکجا کرنے کی کوشش میں لگی ہے۔ میٹنگ اس معنی میں کامیاب رہی کہ ریاستوں میں برعکس کیندر پر رہنے والی پارٹیاں قومی سیاست میں ایک اسٹیج پر آنے کو تیار ہیں۔ میرا ہمیشہ سے خیال رہا ہے کہ کانگریس کا گرتا گراف قومی ٹریجڈی ہے۔ اگر جمہوریت کے لئے مضبوط اقتدار فریق ضروری ہے تو اتنا ہی ضروری مضبوط اپوزیشن۔ اور یہ رول کانگریس ہی نبھا سکتی ہے۔ یہ علاقائی پارٹیوں کا نظریہ تنگ ہوتا ہے جو قومی نقطہ نظر سے نہیں سوچ سکتیں ، یہ ہمیشہ اپنی اپنی ریاستوں کے بارے میں ہی سوچتی ہیں اور کانگریس کی بدقسمتی یہ ہے کہ پارٹی کا گرتا گراف رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سونیا گاندھی بیمار ہونے کے سبب اب اتنی سرگرم نہیں، راہل تمام کوششوں کے باوجود اپنے میں خو اعتمادی پیدا نہیں کرپا رہے ہیں۔ راشٹرپتی چناؤ میں پتہ چل جائے گا کہ ان اپوزیشن پارٹیوں میں کتنا اتحاد ہے۔ 2019ء تو ابھی دور ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!