مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حلف نامہ پر اتفاق
سپریم کورٹ میں تین طلاق کے مسئلہ پر جاری سماعت کا جواز دکھائی پڑنے لگا ہے۔ عدالت میں سماعت پوری ہوچکی ہے، فیصلہ کیا ہوگا یہ تو بعد میں ہی پتہ چلے گا لیکن سماعت کے دوران تین طلاق کو ختم کرنے کی مخالفت کرنے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے جس طرح طلاق کے اس طریقے کے خلاف حلف نامہ میں ایک شرط درج کرنے پر رضامندی دکھائی اس سے لگتا ہے کہ اسے یہ حقیقت سمجھ میں آگئی ہے کہ بیدار مسلم سماج اور خاص کر مسلم خواتین نے اب فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ پرانے طریقے پر چلنے کیلئے اب تیار نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ ابھی مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تین طلاق کے اشو کو عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر بتایا تھا۔ یہ بھی کہا تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیناآئین اور رائج مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوگی۔ بورڈ کی ایک اور اہم دلیل یہ بھی تھی کہ تین طلاق قرآن شریف اور شریعت سے تعلق رکھنے کے سبب عقیدت سے جڑا معاملہ ہے۔ لیکن اب بورڈ کے لہجے میں تبدیلی آئی ہے۔ پیر کو سپریم کورٹ میں داخل اپنے نئے حلف نامہ میں بورڈ نے کہا ہے کہ عورتوں کو تین طلاق نہ ماننے کا حق بھی ملے گا۔ دلہن نکاح نامہ میں وابستہ شرط جڑوا سکے گی۔ یہی نہیں، قاضی دولہا دولہن کو سمجھائے کہ تین طلاق نہ کہنے کی شرط نکاح نامہ میں شامل کروائیں۔ بورڈ تین طلاق کا بیجا استعمال روکنے کے لئے اپنی ویب سائٹ ،سوشل میڈیاسمیت سبھی ذرائع کا استعمال کرے گا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تازہ حلف نامہ کی بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن نے سخت نکتہ چینی کی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے بورڈ عورتوں کے درمیان محض غلط فہمی پیدا کررہا ہے اور کہا ہے کہ تین طلاق کا سہارا لینے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ تنظیم نے کہا یہ صلاح کافی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے تین طلاق کی مخالفت کرنے والی وکیل فراز فیض نے کہا کہ بورڈ قاضیوں کو مشورہ یا دولہوں کو ایسی صلاح دینے والا کوئی فریق نہیں ہے۔ یہ ایک رجسٹرڈ این جی او ہے جو قاضیوں کو نہ تو شامل کرتی ہے اور نہ ہی انہیں نوکری پر رکھتی ہے یہ صرف مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کررہا ہے۔ فیض نے کہا کہ بورڈ کو ایسا مشورہ دینے کا کوئی قانونی یا مذہبی اختیار نہیں ہے کیونکہ اس کا کام صرف سماجی اصلاحات کے لئے کام کرنا ہے۔ دیش کے مسلمانوں پر حکومت کرنا نہیں۔ دراصل بورڈکے یکدم جاگنے کے پیچھے اسے اپنے ہاتھ سے کمان چھوٹنے کا احساس ستا رہا ہے۔ اگر عدالت نے فیصلہ کرلیا تو پھر اس کے پاس کون جائے گا؟ ویسے بھی پرسنل لاء بورڈ پورے مسلم سماج کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اب عدالت کو طے کرنا ہے کہ فیصلے سے پہلے نئے حلف نامہ کو وہ قبول کرتی ہے یا نہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں