کیاجیور واقعہ کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے

جیور میں چار عورتو ں کے ساتھ اجتماعی آبروریزی لوٹ مار و خاندان کے مکھیہ کے قتل کے معاملے میں تضادات میں رپورٹ آرہی ہے۔ معلوم ہو کہ جیور کوتوالی علاقہ کے تحت جیور۔ بلندشہر ہائی وے پر سابوتا گاؤں کے پاس بدھوار کی رات کار سوار فیملی کو بدمعاشوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ انہوں نے لوٹ مار کے بعد کار میں سوار چار عورتوں کے ساتھ کنبے کے سامنے ہی اجتماعی آبروریزی کی۔ ایک عورت کے شوہر نے بدمعاشوں کی مزاحمت کی تو اس کو گولی مار کے ہلاک کردیاگیا۔ بدمعاشوں نے متاثرہ خاندان سے 40 ہزار روپے و زیورات سمیت قریب ایک لاکھ روپے سے زائد کی لوٹ مار کی۔ مقامی پولیس انتظامیہ نے واردات کے بعد اشارے دئے ہیں کہ عورتوں کے بیانات میں تضاد ہے اور گینگ ریپ جیسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ اسکریپ تاجر کے خاندان سے ملنے سنیچر کو جب مرکزی وزیر ڈاکٹر مہیش شرما جیور پہنچے تو متاثرہ خاندان نے مرکزی وزیر سے کہا کہ ابتدائی میڈیکل رپورٹ کا حوالہ دیکر پولیس بے تکے بیان دے رہی ہے۔ اس سے بدفعلی کا شکار اور اس کے رشتہ دار بیحد مایوس ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ابتدائی رپورٹ کا حوالہ دیکر پولیس چار عورتوں سے اجتماعی آبروریزی جیسی سنگین واردات کو مستردکرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ڈاکٹر مہیش شرما نے متاثرہ خاندان کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ فورنسک رپورٹ جب تک لیب سے نہیں آتی اس سلسلے میں کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ دکھ کی اس گھڑی میں سرکار ہرممکن مدد کرے گی۔ دوپہر بعد مقامی کسان یونین کا ایک نمائندہ وفد متاثرہ خاندان سے ملنے پہنچا۔ رشتے داروں نے پولیس پر واردات کی تفصیل نہ بیان کرنے کا الزام لگایا جس کے بعد نمائندہ وفد نے پولیس حکام سے بات چیت کر واردات کے بارے میں جلد تفصیل رکھنے کی مانگ کی۔ متاثرہ عورتوں نے سنیچر کو کورٹ میں بیان درج کرایا۔ اس دوران متاثرہ عورتیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ متاثرہ فریق کی مانیں تو انہوں نے ایک ایف آئی آر کے مطابق ہی بیان درج کرائے ہیں۔ رشتے داروں کے مطابق عورتوں نے کورٹ سے یہ بھی کہا کہ بدفعلی ہونے کے باوجود پولیس اسے میڈیکل رپورٹ کا حوالہ دیکر نظر انداز کررہی ہے۔ متاثرہ خواتین نے لوٹ مار، بدفعلی اور احتجاج کرنے پر اسکریپ کاروباری کے قتل کا بیان کورٹ میں درج کرایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مقامی پولیس و انتظامیہ سچائی کو دبانے کی کوشش کررہی ہے؟ قتل ہوا ہے، بدفعلی کا الزام ہے اسے ہلکے سے نہیں لیا جاسکتا۔ متاثرین سے انصاف ہونا چاہئے۔ اگر اس وقت لیپا پوتی کی جارہی ہے تو یہ سراسر غلط ہے۔ ویسے بھی معاملہ اب عدالت میں چلا گیا ہے جہاں دودھ کا دودھ پانی کا پانی سامنے آجائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!