سیاسی چندے پر لگام صحیح قدم لیکن ادھورہ

کالی کمائی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے ان سیاسی پارٹیوں کو ملنے والا نقد چندہ۔ اس پر لگام کسنے کے لئے مرکزی حکومت نے اس سال عام بجٹ میں پہل کی ہے۔ بجٹ میں وزیر خزانہ کے سیاسی پارٹیوں کیلئے نقد چندہ کی حد 2 ہزار روپئے تک طے کرنے کا فیصلہ صحیح سمت میں اچھا قدم ہے۔ عام بجٹ میں نقد چندے کی حد 20 ہزار سے گھٹا کر 2 ہزار روپئے کرنے کا خیر مقدم ہے ساتھ ہی سرکار سیاسی پارٹیوں کے لئے آمد و خرچ کا حساب کتاب رکھنے کو ضروری کرنے والی ہے۔ اس سلسلے میں مجوزہ قانون کے مطابق پارٹیوں کو دسمبر تک اپنے بہی کھاتوں کی پوری تفصیل محکمہ انکم ٹیکس میں جمع کرنی ہوگی ورنہ انہیں انکم ٹیکس میں ملنے والی چھوٹ ختم کی جاسکتی ہے۔ ویسے اس پہل سے بھی پتہ نہیں چل پائے گا کہ کس عطیہ دہندہ نے چیک یا آن لائن کتنا پیسہ سیاسی پارٹیوں کو دیا ہے، کیونکہ پارٹیاں ان عطیہ دہندہ کو یہ بتانے کیلئے مجبور نہیں ہیں جو انہیں 20 ہزار روپئے سے کم چندہ دیتے ہیں تو اب پتہ نہیں چل پائے گا کہ کس سیاسی پارٹی کو کس نے کتنا چندہ دیا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ چناؤ کمیشن سے سیاسی پارٹیوں کو چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ عطیہ دہندہ کے20 ہزار روپے سے کم چندہ دینے والے کا نام بتانے کے لئے مجبور نہیں ہیں۔ یہ قاعدہ اب بھی لاگو ہے۔ حال ہی میں چناؤ کمیشن نے بھارت میں 1900 رجسٹرڈ سیاسی پارٹیاں ہونے کی بات کہی تھی۔ ان میں سے400 سے بھی زیادہ ایسی پارٹیاں ہیں جنہوں نے کبھی بھی کوئی چناؤ نہیں لڑاہے۔ اس ناطے کمیشن کا یہ اندیشہ صحیح ہے کہ یہ پارٹیاں ممکن ہے کالے دھن کو سفید میں بدلنے کا ذریعہ بنتی ہوں؟ چناؤ کمیشن نے اب ایسی پارٹیوں کی پہچان کرکے ان کو اپنی فہرست سے ہٹانے و ان کا چناؤ نشان ضبط کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ چناؤ کمیشن نے محکمہ انکم ٹیکس سے بھی کہا ہے کہ ایسی نام نہاد پارٹیوں کی انکم ٹیکس چھوٹ ختم کردی جائے۔ بجٹ میں سیاسی پارٹیوں کو ملنے والے خفیہ چندے کی دفعہ کو اے ڈی آر (ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم) نے ادھورہ بتایا ۔ اے ڈی آر کے مطابق چندے کے آڈٹ سسٹم بنانے کے ساتھ ہی اس میں پوری شفافیت نہیں لائی جائے گی جب تک یہ جواب دہی نہیں طے ہوسکتی کے اے ڈی آر ماہرین کا ایک گروپ ہے جو چناؤ اور سیاست اور اس سے وابستہ اشو پر گہری نظر رکھتا ہے۔ مرکزی سرکار کے بجٹ کے ایک دن بعد ہی اے ڈی آر نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں نے چندے کے معاملے میں ابھی پوری طرح شفافیت نہیں لائی جاسکتی۔ ایک عطیہ کنندہ سے دو ہزار روپے تک کے چندے کی حد لاگو کرنے کے باوجود وزیر خزانہ یہ نہیں بتا سکے کہ اس پر عمل کیسے ہوگا؟ یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ پارٹیوں کا خرچہ ہزار دو ہزار کے نقد چندے سے نہیں چلتا۔ تمام کاروباریوں ، صنعتکاروں کی مدد سے اور کرپشن سے اور کس پیسے سے چناؤ لڑے جاتے ہیں۔ صنعتکاروں سے ملنے والے پیسوں پر لگام لگانے کے مقصد سے ہی چناؤ کمیشن نے بھی امیدواروں کے چناؤ خرچ کی حدطے کی تھی مگر کیونکہ اس میں پارٹیوں کا خرچ شامل نہیں ہوتا اس لئے بہت سارے امیدوار چناؤ میں کھل کر دھن بل کا استعمال کرتے ہیں۔ پارٹیوں کی طرف سے امیدواروں کو ملنے والے یا پھر امیدواروں کو پارٹی کے نام سے ہونے والے خرچ پرکھینچی چلانے کے مقصد سے سرکار نے پارٹیوں کی آمد و خرچ کی بیلنس شیٹ پیش کرنا ضروری بنانے کا من بنایا ہے۔ یہ کہاں تک ممکن ہوگا یہ دیکھنے کی بات ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کے چیف پبلک اسٹیجس سے اپنے ورکروں کو سادگی بھری زندگی اور چناؤ اصلاحات کی بات تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں اسے عمل میں لانا نہیں چاہتے۔ صنعتکار چوری چھپے چندے کی شکل میں بڑی رقم دینے سے باز آئیں گے یہ دعوی نہیں کیا جاسکتا اس لئے سرکار کو کالے دھن کے ذرائع کی پہچان کیلئے اور مشقت کرنے کی ضرورت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!